آج کے کالمزپاکستانفیچر کالمزکالمز

جب ووٹ شعور سے خالی ہو

کالم نگار : پروفیسر محمد رزاق امن، پی این پی نیوز ایچ ڈی

پاکستان میں سیاست اب کوئی خدمت یا اصولوں کا نام نہیں رہا، بلکہ یہ ایک ایسا تماشہ بن چکی ہے جس میں سب اداکار بنے ہوئے ہیں اور عوام تماش بین۔ ہر طرف سے آوازیں آتی ہیں کہ ہمیں آگے نہیں آنے دیا جا رہا، اسٹیبلشمنٹ رکاوٹ ڈالتی ہے، عوام کے ووٹ کی عزت نہیں کی جاتی۔ مگر اگر ذرا غور کیا جائے تو اس وقت ملک کی ہر بڑی سیاسی جماعت کسی نہ کسی شکل میں حکومت کا حصہ ہے۔
سندھ میں ایک پارٹی پچھلے کئی سالوں سے حکومت میں ہے، اور وہاں کے حالات یہ ہیں کہ عمارتیں خود بخود گرتی ہیں، جیسے کسی آسمانی اشارے پر۔ لوگ ملبے تلے آ کر جان سے چلے جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔
پنجاب میں ایک اور سیاسی جماعت حکومت میں ہے، جہاں کے اسپتالوں میں سہولیات کی عدم موجودگی کے باعث بیس نومولود بچے جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ اس سانحے کے بعد بیانات کا ایک ریلا آتا ہے، تحقیقات کے وعدے ہوتے ہیں، اور پھر سب کچھ حسب معمول ہو جاتا ہے۔
ایک اور جماعت جو خود کو سب سے زیادہ مظلوم سمجھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اسے حکومت میں آنے سے روکا جا رہا ہے، خیبرپختونخوا میں برسراقتدار ہے۔ وہاں بھی سیاحتی مقام پر دریا میں پھنسنے والی فیملیاں کئی گھنٹے مدد کی منتظر رہیں، مگر کوئی پہنچا نہیں، نتیجہ: قیمتی جانوں کا ضیاع۔ بلوچستان کی بات کریں تو وہاں تو جیسے دہشت گردی کا راج ہے۔ کبھی ریلوے ٹریک پر دھماکہ، کبھی بس پر حملہ، اور حکومتوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
یہ سب کچھ دیکھ کر یہ کہنا کہ کسی ایک پارٹی کو حکومت کرنے نہیں دی جا رہی، ایک دھوکہ ہے، خودفریبی ہے۔سب کو موقع ملا، سب نے حکومت کی، اور سب نے مایوسی دی۔
یہ وہ مقام ہے جہاں پر الزام تراشی بند ہونی چاہیے اور اصل مسئلے کی طرف دیکھا جانا چاہیے، اور وہ ہے عوام کی شعوری پستی۔ اس ملک میں جب کوئی قابل، پڑھا لکھا، بااخلاق اور باکردار شخص الیکشن لڑنے کی نیت سے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرانے جاتا ہے، تو کمال کی بات یہ ہے کہ وہاں موجود اہلکار، جو روز اسی عمل سے گزرتے ہیں، وہ بھی اسے کہتے ہیں: "یار آپ کہاں گند میں کود رہے ہو؟ یہاں تو صرف گندے لوگ چلتے ہیں۔" یعنی جن کے
ہاتھ میں الیکشن کی ترتیب و انتظام ہے، وہ بھی جانتے ہیں کہ عوام کس کو ووٹ دیتی ہے — جاگیردار، وڈیرہ، بدعنوان، غنڈہ، یا پھر وہ جس کے ساتھ پندرہ بندوق بردار ہوں، پیچھے درجنوں نعرے باز اور کچھ ایسے "فالوورز" ہوں جو چہرے سے ہی قانون شکنی کی علامت لگیں۔
یہ تاثر صرف عام لوگوں تک محدود نہیں، خود امیدواروں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں قابلیت نہیں، طاقت، دولت اور دھونس کی بنیاد پر ووٹ پڑتے ہیں۔ ایک ایماندار امیدوار جب دیکھتا ہے کہ اس کے پاس نہ دولت ہے، نہ دھونس، نہ دھاندلی کا ہنر، تو وہ بھی دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔
ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے: آخر ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ ایک کلرک کی نوکری کے لیے کم از کم گریجویٹ ہونا ضروری ہوتا ہے، کئی ٹیسٹ دینے پڑتے ہیں، انٹرویو ہوتے ہیں، قابلیت کا معیار دیکھا جاتا ہے۔ لیکن جو لوگ پورے ملک کا نظام چلانے آتے ہیں، ان کے لیے نہ تعلیم کا کوئی معیار ہے، نہ قابلیت کا۔ اسمبلی میں ایسے ایسے لوگ پہنچتے ہیں جنہیں ایک درست جملہ لکھنا نہیں آتا، اور ایسے لوگ سائنس و ٹیکنالوجی، تعلیم، معیشت، یا ہوا بازی کی وزارتوں کے وزیر بن جاتے ہیں۔
یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ عوام ووٹ دیتے وقت شعور کا مظاہرہ نہیں کرتی۔ ووٹ دینے کا مطلب ملک کی تقدیر لکھنا ہے، لیکن ہم اسے برادری، لسانیت، ذات پات، اور ذاتی مفادات کی بنیاد پر دیتے ہیں۔ اور پھر جب نتیجہ وہی پرانا نکلتا ہے — بدحالی، مہنگائی، کرپشن، دہشت گردی — تو ہم کسی اور کو الزام دیتے ہیں۔ کبھی اسٹیبلشمنٹ، کبھی بیرونی سازش، کبھی عدلیہ، کبھی میڈیا، مگر خود کو نہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی اسی وقت مداخلت کرتی ہے جب سیاست دان خود ناکام ہو چکے ہوں، جب نظام ہاتھ سے نکل رہا ہو۔ اگر اسمبلیوں میں واقعی قابل، محنتی، ایماندار اور ملک کے لیے درد رکھنے والے لوگ بیٹھے ہوں، تو کوئی طاقت مداخلت کا جواز بھی نہ تلاش کر سکے۔
جس دن عوام نے یہ طے کر لیا کہ وہ صرف اسی کو ووٹ دے گی جو تعلیم یافتہ ہے، جس کا کردار صاف ہے، جس کے پاس وژن ہے، تب جاگیردار، وڈیرے، الیکٹیبلز، سب فارغ ہو جائیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی تب صرف اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام کرے گی، کیونکہ اسے پتا ہوگا کہ پارلیمنٹ میں موجود نمائندے ملک چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
قومی شعور ہی وہ کنجی ہے جو ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔ جب تک ہم یہ شعور پیدا نہیں کرتے، ہم ہر بار انہی چہروں کو بدل بدل کر آزماتے رہیں گے، اور ہر بار نتیجہ وہی نکلے گا — مایوسی، ندامت، اور الزام۔
ملک کو نہ بندوق کی ضرورت ہے، نہ انقلاب کی۔ صرف ایک صاف شفاف بیلٹ پیپر، اور اس پر پڑنے والا باشعور ووٹ۔ بس!

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *

error: مواد محفوظ ہے