my voice 133

کراچی اور سندھ سمیت کے غریب عوام پانی کی ایک ایک بلند کو ترس کر رھ گئے ہیں۔۔۔!!!

کراچی اور سندھ سمیت کے غریب عوام پانی کی ایک ایک بلند کو ترس کر رھ گئے ہیں۔۔۔!!!

کالم نویس/اعجاز احمد طاہر اعوان

اس وقت کراچی اور سندھ بھر میں پانی کی شدید قلت میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے۔ سندھ اور کوٹری تینوں بیراجوں کو مجموعی طور پرب40 فیصد پانی کی سنگین قلت کا سامنا ہے۔ پانی کی کمی اور قلت سے فصلوں کو بھی شدید نقصان پہنچنے کا بھی خطرہ لاحق ہے۔ کراچی کے عوام۔جو ہر ماہ پانی کے بالوں کی ادائیگی کو یقینی بناتے ہیں مگر صد افسوس کہ وہ اس وقت پانی کے حصول کے لئے ایک ایک بوند کی خاطر ترس رہے ہیں۔ پورے کراچی میں واٹر بورڈ کے ذمہ داران اہل۔کاروں اور ٹینکر لگایا کی ملی بھگت سے واٹر بورڈ کو سالانہ کروڑوں روپے کے خسارہ کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ اور واٹر بورڈ کے ڈاکوؤں کو ادارہ کو لوٹنے اور تباہ کرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ اقتصادی طور پر شہر کراچی میں پانی کی قلت اور کمی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت شہر کے تقریبا” ہر دوسرے شخص کو اس کی اشد ضرورت ہے۔ اور اپنی مل ہی نہیں رہا۔ اور کچی آبادیوں میں رہنے والے غریب گھرانوں پر مشتمل خاندانوں میں سے ایک کروڑ 60 لاکھ گھرانوں میں تو پانی آتا ہی نہیں۔ شہر میں فراہمی آب کا نظام واٹر بورڈ میں سیاسی وابستگی اور کرپٹ عناصر کی ملک بھگت سے اور ٹینکر مافیا کے گھٹ جوڑ سے کروڑوں روپے ماہانہ کما رہا ہے۔ اور ادارہ واٹر بورڈ کا ہر ملازم عیاشی کی زندگی گزار رہا ہے۔ شہر کے اندر واٹر بورڈ کی طرف سے سالہا سال سے بھی گئیں پانی کی پرانی لائنوں سکی وجہ سے بہت سا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہزاروں گیلن پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے تمام پانی کی پرانی اور خستہ حالی کا شکار پائپ لائنوں کو فوری تبدیل کیا جائے۔ اور ان کی جگہ پانی کی نئی لائنیں بچھائی جائیں۔ اور واٹر سپلائی پائپ فوری تبدیل کرنے کی نئی منصوبہ بندی پر عمل کیا جائے۔ اس وقت تین کروڑ آبادی والے شہر کراچی کو یومیہ 1200 سو ملین گیلن کی ضرورت ہے۔ لیکن صورتحال یہ ہے کہ حب ڈیم سے صرف 10پ “”MGD”” بنتا ہے۔ جبکہ دریائے سندھ سے 480 ملین گیلن پانی یومیہ مل رہا ہے۔ مجموعی طور پر یہ شیئر 580 “”MGD”” ہی بنتا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی ہی ایسا شعبہ ہو گا جو “”مافیا”” نہ ہو، پانی قلت کی وجوہات میں موسمیاتی تبدیلی جہاں ایک وجہ ہے۔ وہاں صوبوں کے درمیان پائی جانے والی بد اعتمادی بھی اہم اور بڑی وجہ میں شامل ہے۔ ہمارے یہاں پانی ذخیرہ کرنے والے فیصلوں کی شدید قلت کا بھی سامنا ہے۔ “”ارسا”” کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریبا” 145 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے۔ ہمیں اس وقت ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ پانی کے سنگین مسلہ کو حل کرنے کے لئے جہاں بد اعتمادی، بد انتظامی ختم۔کرنے ، پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کی اشد ضرورت ہے۔ وہاں پانی ذخیرہ کرنے کے پہلے سے جاری منصوبہ بندی کو جلد مکمل کرنا ہو گا۔ ملک کے اندر نئے اور چھوٹے ڈیموں کی منصوبہ بندی کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت بن کر رہ گیا ہے اس پانی کی وافر مقدار حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ ساتھ بجلی بھی پاکستان کو حاصل ہو گئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں