عرفان السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ایک ماہر نفسیات سماج کے خلاف تیرو تلوار نہیں کچھ پھول، حوصلہ اور کچھ مسکراہٹیں لئے دروازے پر آتا ہے
سیدہ نمیرہ محسن شیرازی :پی این نیوز ایچ ڈی
آج کا دن جاتی گرمیوں کی چند یادگاروں میں سے ہے۔ شجر و حجر اپنے دکھ پتوں اور گھاس کے خشک تنکوں کی صورت خود سے جدا کر رہے ہیں۔ سورج گہنا رہا ہے اور کبوتر اور فاختائیں نسبتا پرسکون ہیں۔ فجر کے فورا بعد ابابیلوں نے تھوڑی دیر کوآسمان ڈھک دیا تھا اور خوب چہچہا رہی تھیں۔ ساحلوں پر مسافر پرندے اترنا شروع ہو گئے ہیں۔ کچھ سبز درختوں پر زرد پھول کھل رہے ہیں اور کچھ نیلے ،کاسنی اور سرخ پھولوں کا تاج پہنے جھوم رہے ہیں۔
اسی سب میں مجھے کچھ یاد آیا اور دماغ کی لگام اللہ محبوب نے پکڑ کر اپنی اور کھینچ لی۔
نفسیات کے مطابق کوئی انسان پورا برا نہیں ہوتا۔ ہم سب کچھ برے اور زیادہ اچھے ہوتے ہیں۔ فطرت تو سلیم ہی ہوتی ہے مگر ماحول، تربیت اور تعلیم آنے والے دنوں میں مکمل ہونے والی شخصیت کا تعین کرتے ہیں۔
ایک ماہر نفسیات سماج کے خلاف تیرو تلوار نہیں کچھ پھول، حوصلہ اور کچھ مسکراہٹیں لئے دروازے پر آتا ہے، گلے سے لگاتا ہے اور زہر سے نیلی پڑتی روح کو امید اور عفوکے تریاق سے شفا کی جانب راہ دکھاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی جلتے ہوئے کمرے سے بھاگ کر جان بچانےکا دروازہ کھول دے۔
ہردکھ سکھ کا بھائی ہے جیسے ہمارے بہن بھائی، ہر طرح کے۔ کوئی ہابیل و قابیل جیسا یا برادران یوسف کی مانند۔ لیکن پھر بھی یوسف علیہ السلام اقتدار کی مسند پر عفو کی خیرات کرتے نظر آتے ہیں۔ آسیہ فرعون جیسے لعنت زدہ انسان کی بیوی ہونے کے باوجود اس کے ظلم کے جواب میں اپنی رب سے فریاد تو کرتی ہے مگر اس ملعون کے لئے کوئی سزا تجویز نہیں کرتی اور رب محبوب سے اس کی جنتوں میں اس سوہنے کے گھر کے پاس ایک گھر مانگ لیتی ہے۔
اللہ رب العزت نے ہمیں بنایا ہے، اس عظیم رب نے اس ایک سیارے پر ہمیں بنانے کے لئے اس پوری کائنات کو دلہن کی مانند سجا ڈالا۔ ہے کوئی جو ہم گنہگاروں سے اتنی محبت کرے؟
غلطی ہم سے ہوئی، بات ہم نے نہ مانی ، سزا ہماری ٹھہری مگر وہ سزا سنانے والا ہم سے شدید محبت کرتا ہے۔
اس گورکھ دھندے میں ڈالنے سے پہلے ماں کے دل میں اپنی محبت کا ایک حصہ ڈال دیا کہ مجھ سے محبت کرنے والے کہیں میری جدائی میں دیوانے نہ ہو جائیں۔
کچھ ایسے بھی ہوئے جنہوں خود کو رب محبوب کی محبت میں جلا ڈالا اور کچھ نے اوروں کو دنیا کی چاہ میں۔
نفسیات اس بات سے انکاری ہے کہ انسانی رویے میں بہتری نہیں آسکتی۔ حالات و واقعات بہت اچھے لوگوں سے بھی بہت برے فیصلے اور عمل کروا لیتے ہیں۔ ہم جذبات کی رو میں بہہ کر وہ سب کچھ کر جاتے ہیں جو ہم کو اللہ کے غلام ہوتے ہوئے زیب نہیں دیتا۔ اب یہاں وہ عقدہ کھلا جس نے مجھے ساتویں آسمان کی سیر کروادی۔
"اور تیرے رب کی مغفرت بہت وسیع ہے۔”
جہاں بدلہ لینے کی گنجائش رکھی وہیں عفو کی جانب راغب بھی کیا۔
محبوب کا حکم آیا "اگر چاہتے ہو کہ اللہ تمہیں معاف کرے تو لوگوں کو معاف کردیا کرو۔”
پھر فرمایا” معاف کرو اور درگزر کرو” یعنی نظریں دوسروں کی خامیوں سے پھیر لو۔ قتل کی صورت میں بھی معاف کر دینے کا درجہ بلند رکھا۔
میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے جب مجھے یہ سمجھ آئی کہ جن لوگوں کو گنہگار سمجھ کر ہم حقارت سے دیکھتے ہیں ان سے ان کے خالق کو کتنا پیار ہے۔ وہ اگر حقوق العباد کی معافی دنیا میں جس سے زیادتی کی اس سے مانگ کر حشر کو ملنے بلا رہا ہے وہ تو اس گنہگار کا بھی رب ہے جس نے اپنا اعمال نامہ سیاہ کر ڈالا۔
اس نے اپنی کتاب میں کہا ہے ، بار ہا بتایا ہے کہ ندامت قبول ہوگی، نادم ہونا شرط ہے۔ معافی مل جائے گی، مانگنا شرط ہے۔ عمل میں تبدیلی ودیعت ہو گی ، پہلا قدم شرط ہے۔ تو کیا قباحت ہے؟
وما لی لا اعبد الذی فطرنی والیہ ترجعون؟
ہے کوئی میرے پاس جواب جس کو اس سوال کی سامنے رکھا جا سکے؟
ہمارے رب نے جب ہمیں تخلیق کیا تو وہ جانتا تھا کہ میرے یہ بندے جو گارے اور پاک مٹی سے گندھے، آدھے بہت اچھے ، آدھے بہت برے۔ کچھ نور، کچھ گناہ ملا دیں گے تبھی اس نے اپنی مغفرت کو وسیع کردیا۔ اور یہ وہ وسعت ہے جو انسانی سمجھ بوجھ کی رسائی سے باہر ہے۔
چلئے سب کو معاف کر دیتے ہیں۔ اس رب کے روشن چہرے کے صدقے جس کو تکنے کی چاہ میں دنیا کا دکھ کاٹ رہے ہیں۔
صرف معاف ہی نہیں کرنا پھر ان کو عزت بھی دے دیتے ہیں۔ مگر خیال رہے کہ برائی کے شر سے خود کو دور رکھنا بھی عبادت ہے۔ غافل تو بے عقل ہی ہوتا ہے۔




