تحریر :فاطمہ قمر پاکستان قومی زبان تحریک
محترم سید جمیل احمد رضوی اپنے مضمون “اردو ذریعہ تعلیم: اہمیت و افادیت”
میں اردو ذریعہ تعلیم کے بارے میں لکھتے ہیں:
” 1974 میں جامعہ پنجاب میں شعبہ لائبریری سائنس کا اجراء کیا گیا۔اس وقت شعبہ کے چئیر مین ڈاکٹر ممتاز علی انور تھے۔ وہ 1973 میں امریکہ سے لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کر کے ائے تھے اس وقت اپ صوبہ پنجاب کے پہلے فرد تھے جنہوں نے اس شعبہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔اس پہلی جماعت میں راقم الحروف بھی شامل تھا طلبہ و طالبات کی تعداد 28 تھی ۔یہ اس پہلی جماعت میں ٹیسٹ و انٹرویو کے بعد داخل ہوئے۔ اس وقت میری جامعہ پنجاب میں پروفیشنل سروس قریبا بارہ برس تھی ۔اس پس منظر کے بعد یہ بتانا مناسب ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ممتاز انور صاحب نے “اصول تحقیق” اور سائنسی انتظامیات کے دو پرچے پڑھانا شروع کردئیے۔اصطلاحات انگریزی زبان میں تھیں ۔ ابھی دو روز ہی کلاس کو شروع ہوئے تھے کہ ہمارے ایک ہم جماعت کھڑے ہوگئے انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپ ہمیں اردو میں پڑھاتے ہیں۔ہماری سب نصابی کتب انگریزی میں ہیں۔امتحان بھی انگریزی زبان میں ہوگا۔بہتر ہوگا اپ ہمیں انگریزی میں پڑھائیں ۔اس پر ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا میں اردو ہی میں پڑھاؤنگا بلکہ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو پنجابی میں بھی پڑھاونگا۔اپ سمجیں کہ انگریزی مجھے آتی نہیں۔ اگرچہ میں امریکہ میں پڑھا کر آیا ہوں ۔ یہ درست ہے کہ نصابی کتب اس وقت انگریزی میں ہیں۔ لیکن جامعہ کی طرف سے آپ کو اجازت ہے کہ آپ امتحان اردو میں دیں یا انگریزی میں دیں۔اس طرح اس شعبے میں اردو ذریعہ تعلیم میں تعلیم کا اغاز ہوا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جو ہمارے دو ہم جماعت ایم اے کے امتحان میں اول ائے ان میں سے ایک نے دو یا تین پرچے اردو میں دئیے تھے ۔راقم کے خیال میں اردو میں سوچنا بہتر نتائج پیدا کرتا ہے۔ بہ نسبت غیر ملکی زبان اختیار کرنے کے۔ انگریزی ذریعہ تعلیم میں پڑھنے والے بچوں کو اردو کی گنتی تک نہیں آتی۔ یوں ان مدارس کے بچے اپنی تہذیب سے ناواقف ہوتے جارہے ہیں”
( سید جمیل احمد رضوی)
ہم محترم سید جمیل احمد رضوی کے اردو ذریعہ تعلیم کے بارے میں ان کی قیمتی رائے سے سو فیصد متفق ہیں۔ کہ تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا صرف اور صرف قومی زبان میں تعلیم دینے سے ہی ملتی ہیں۔ ہمیں فخر ہے جامعہ پنجاب کے عظیم اساتذہ ماضی میں اردو ذریعہ تعلیم کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے اس لئے وہ بیرون ملک سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود جامعہ کے طلباء کو اردو ہی میں علم دیتے تھے۔ ہم خود جامعہ پنجاب کے 90 کی دھائی میں طالبعلم تھے ۔ایک دو کو چھوڑ کر ہمارے تمام اساتذہ کرام امریکہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر ائے تھے لیکن وہ تمام لیکچر اردو ہی میں دیتے تھے اور پرچہ اردو و انگریزی دونوں زبانوں میں ہوتا۔طلباء کو اختیار تھا کہ وہ کسی بھی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کرسکتے تھے۔
70′ 80 ‘ 90 کی دہائی میں تو اردو میں تعلیم دینا ممکن تھا۔ لیکن اج جب دنیا بھر کی زبانوں کے تراجم اپ کے ایک انگوٹھے کی مار ہے تو آج اردو میں تعلیم دینا ممکن نہیں! یعنی جن زبانوں کی تیس ‘ چالیس پہلے کوئی علمی ‘ سائنسی حیثیت نہیں تھی وہ زبانیں تو آج نرسری سے پی ایچ ڈی تک تمام علم اپنی زبان میں دے رہی ہیں اور اردو جو سو دو سو سال پہلے سائنس کی زبان بن چکی تھی اج اس میں سائنس کی تعلیم دنیا ممکن نہیں! یہ ہے کالے انگریزوں اردو ذریعہ تعلیم کے بارے میں پھیلایا گیا شر! ان شاءاللہ! پاکستان قومی زبان تحریک لارڈ میکالے کے ان غلاموں کے نفاذ اردو کے خلاف اس زہریلے پراپیگنڈے کا بھرپور علمی ‘ عدالتی’ عوامی ہر میدان میں جواب دے گی پاکستان میں نفاذ اردو کروا کر ہی دم لے گی! ان شاءاللہ.