اور ہم بھول جاتے ہیں۔ اپنی ذات کو.نمیرہ محسن 155

سعودی عرب میں مقیم زندہ دلانے شہر لاہور سے تعلق رکھنے والی اپنے خاندان کی اولین خاتون، “”PNP”” ادارہ کے لئے باعث اعزاز سیدہ نمیرہ محسن شیرازی

رپورٹ/اعجاز احمد طاہر اعوان
سعودی عرب میں مقیم زندہ دلانے شہر لاہور سے تعلق رکھنے والی اپنے خاندان کی اولین خاتون، “”PNP”” ادارہ کے لئے باعث اعزاز سیدہ نمیرہ محسن شیرازی کو انکی دینی اور مذہبی خدمات کے اعتراف میں “”ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ آف ایسٹرن کی طرف خصوصی ایوارڈ اور تعریفی سند سے نوازا گیا ہے، وہ اپنے خاندان کی پہلی خاتون اول ہیں کہ جن کو اس تاریخی اور یادگار “” اعزاز ایوارڈ”” سے نوازا گیا ہے، اور سعودی عرب میں مقیم پاکستانی دیگر خواتین کے لئے “”رول ماڈل”” کا بھی مقام رکھتی ہیں۔

یہ 2009 کی بات ہے جب میرے میاں کا تبادلہ ینبع الصناعیہ سے دمام ہو چکا تھا۔ میرے بچے چھوٹے تھے اور خاص طور پر لڑکیوں کے لیے کوئی ایسی مصروفیت نہ تھی جو ان کی نصابی تعلیم سرگرمیوں اور تربیت کے ساتھ ساتھ کردار سازی اور گھرداری کی تربیت کر سکے۔

گرمیوں کی چھٹیوں کا آغاز ہوتے ہی مجھے ایک مذہبی سمر کیمپ کا پتہ چلا۔ میں نے اپنی بیٹی کو وہاں داخلہ لے کردیا۔ وہ کیمپ صرف بنیادی ابتدائی تربیت کا تھا۔ انہی دنوں میں، میں “” ندوہ “” سے قرآن کی تفسیر سیکھ رہی تھی اور ساتھ ہی حدیث سائنسز کا کورس بھی کر رہی تھی۔ تبھی اللہ نے مجھے اس کام کے لیے چنا اور مجھے “”ندوہ”” کی سربراہ کی جانب سے پیغام موصول ہوا کہ “” ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ”” کے سربراہان مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد مجھ پر عقدہ کھلا کہ مجھے میری تعلیم کے دوران پرکھا گیا اور میرا نام چن لیا گیا۔ بہر حال جب انہوں نے مجھے نوجوانوں کی تربیت کے حوالے سے ایک ایسا کورس مرتب کرنے کو کہا کہ جو ان کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کی تربیت اور کردار سازی بھی کرتا ہو تو میرے لیے یہ کام عبادت کا حصہ بن گیا۔ میرے کاندھوں پر میرے رب کی ڈالی عظیم ذمہ داری اور میرے وطن پاکستان کی عزت، ہر دو کا بوجھ آگیا۔
زمانہء طالبعلمی سے ہلال احمر اور اسکاوٹ کی تربیت یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ والد نے اور بہت سے ہنر سکھائے تھے جو سب تو نہیں مگر کچھ یہاں استعمال ہو سکتے تھے۔ مجھے اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کے لیے ایسا نصاب تیار کرنا تھا جو انہیں ایمانی اور جسمانی طور پر مضبوط بناتا۔ ان کی ذہنی استعداد کو بڑھانا، انسانیت ، ہمدردی، خیالات کی بلندی اور اپنی پیدائش کے مقصد کی واضح تصویر نوخیز ذہنوں میں اجاگر کرنا ، کم از کم میرے لیے اس وقت کا بہت بڑا چیلنج تھا۔
پہلا سمر کیمپ ، بہترین کورس بنا اور تمام اسکولوں سے بہترین استادوں کا چناو۔ قرآن، حدیث، سائنس، آرٹ، گھریلو بجٹ سازی، خطاطی، پیراکی، مختلف جسمانی کھیل، تقریر، مذاکرہ، مووی میکنگ، مقابلہ ء تصویر کشی، سلائی، بنائی، بیکنگ اور کھا نا بنانا۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ یہی سب لڑکوں کے لیے بھی منتخب کیا گیا۔
بس اس کے بعد مجھے چھٹی نہ ملی۔ اللہ نے سعودی عرب کا پہلا اسماء الحسنی کی خطاطی کا مقابلہ اور ریاست کی پہلی حدیث سائنسز نمائش منعقد کروانے کا موقع بخشا۔
اربعین نووی کی تفسیر نفسیاتی ادراک اور پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے چالیس بچیوں اور عورتوں کو مکمل کروائی۔
انہی بہترین سالوں میں برصغیر سے ایک خاتون مبلغہ کو سعودی اسلامک مرکز کی جانب سے جوش آمدید کہا اور میری انہی تربیت شدہ چالیس اسلامی بیٹیوں نے سارے انتظامات سنبھالے۔ اس مذاکرے کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ سعودی لوگ سخت دل ہیں مگر مجھے اللہ نے ان کا بہترین رخ دکھایا۔ مجھے جو عزت ان سے ملی میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی۔
اسی دوران 2010 میں سلطنت کا پہلا یوتھ میگزین جاری کیا’ وآسسز ان دا کنگڈم’ کے نام سے۔ میرے نزدیک ہر نوجوان ہر جنسی تفرق سے بالاتر مستقبل کا قائد ہے۔ ان کو مثبت صحافت کی طرف راغب کرنا،نوجوانوں کی آواز کو درست راہ پر بڑھانا اور ادب کی مناسب تربیت دینا ہماری انتہائی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔
مجھے اپنی ان اپنی خدمات کے بدلے میں سوائے اپنے رب کی رضا کے کسی اجرت کی تمنا تھی اور نہ ہی ہے۔ مجھے جب پہلا تمغہ وصول کرنے کے لیے بلایا گیا تو میں باوجود کوشش کے خود کو آمادہ نہ کر پائی۔ خود پر اللہ کی مہربانیاں دیکھ کر اور اپنی ریاکارانہ کوششوں پر نظر کرتی تو شرمسار ہوتی تھی۔
آخر کار یہ شیلڈ مجھے گھر آکر دی گئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں