فضائل و شہادت امام حسین علیہ السّلام (تحریر: عمران خان رند بلوچ) 480

فضائل و شہادت امام حسین علیہ السّلام (تحریر: عمران خان رند بلوچ)

حسین ابن علی (امام حسین) علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چھوٹے نواسے اور علی بن ابی طالب و فاطمہ زہرا کے چھوٹے بیٹے تھے۔ ‘حسین’ نام اور ابو عبد اللہ کنیت ہے۔ ان کے بارے میں محمد صلی اللہ علیہ “و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حسین منی و انا من الحسین یعنی” حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں

ہجرت کے چوتھے سال تیسری شعبان پنجشنبہ کے دن آپ کی ولادت ہوئی۔ اس خوشخبری کو سن کر جناب رسالت ماب تشریف لائے، بیٹے کو گود میں لیا، داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور اپنی زبان منہ میں دی۔ پیغمبر کا مقدس لعاب دہن حسین علیہ السّلام کی پہلی غذا بنا۔ ساتویں دن عقیقہ کیا گیا۔ آپ کی پیدائش سے تمام خاندان میں خوشی اور مسرت محسوس کی جاتی تھی، مگر آنے والے حالات کا علم پیغمبر کو تھا، اس لئے آپ کی آنکھوں میں آنسو برس پڑا۔ اور اسی وقت سے حسین کے مصائب کا چرچا اہلیبت ُ رسول کی زبانوں پر آنے لگا۔

پیغمبرِ اسلام کی گود میں جو اسلام کی تربیت کا گہوارہ تھی اب دن بھر دو بچّوں کی پرورش میں مصروف ہوئی ایک حسن دوسرے حسین اور اس طرح ان دونوں کا اور اسلام کا ایک ہی گہوارہ تھا جس میں دونوں پروان چڑھ رہے تھے۔ ایک طرف پیغمبرِ اسلام جن کی زندگی کا مقصد ہی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی اور دوسری طرف حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب جو اپنے عمل سے خدا کی مرضی کے خریدار بن چکے تھے تیسری طرف حضرت فاطمہ زہرا جو خواتین کے طبقہ میں پیغمبر کی رسالت کو عملی طور پر پہنچانے کے لیے ہی قدرت کی طرف سے پیدا ہوئی تھیں اس نورانی ماحول میں حسین کی پرورش ہوئی۔

حضرت محمد مصطفےٰ اپنے دونوں نواسوں کے ساتھ انتہائی محبت فرماتے تھے . سینہ پر بیٹھاتے تھے . کاندھوں پر چڑھاتے تھے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے تھے کہ ان سے محبت رکھو . مگر چھوٹے نواسے کے ساتھ آپ کی محبت کے انداز کچھ امتیاز خاص رکھتے تھے .ایسا ہو اہے کہ نماز میں سجدہ کی حالت میں حسین پشت ُ مبارک پراگئے تو سجدہ میں طول دیا . یہاں تک کہ بچہ خود سے بخوشی پشت پر سے علیٰحدہ ہوگیا .اس وقت سر سجدے سے اٹھایا اور کبھی خطبہ پڑھتے ہوئے حسین مسجد کے دروازے سے داخل ہونے لگے اور زمین پر گر گئے تو رسول نے اپنا خطبہ قطع کردیا منبر سے اتر کر بچے کوزمین سے اٹھایا اور پھر منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ »دیکھو یہ حسین ہے اسے خوب پہچان لو اور اس کی فضیلت کو یاد رکھو « رسول نے حسین کے لیے یہ الفاظ بھی خاص طور سے فرمائے تھے کہ »حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں,, مستقبل نے بتادیا کہ رسول کا مطلب یہ تھا کہ میرا نام اور کام دُنیا میں حسین کی بدولت قائم رہیگا .

امام حسین کی عمر ابھی چھ سال کی تھی جب انتہائی محبت کرنے والے کاسایہ سر سے اٹھ گیا .اب پچیس برس تک حضرت علی ابن ابی طالب کی خانہ نشینی کادور ہے .اس زمانہ کے طرح طرح کے ناگوار حالات امام حسین دیکھتے رہے اور اپنے والد بزرگوار کی سیرت کا بھی مطالعہ فرماتے رہے . یہ وہی دور تھا جس میں آپ نے جوانی کے حدود میں قدم رکھا اور بھر پور شباب کی منزلوں کو طے کیا .35ھ میں جب حسین کی عمر 31 برس کی تھی عام مسلمانوں نے حضرت علی ابن ابی طالب کو بحیثیت خلیفہ اسلام تسلیم کیا . یہ امیر المومنین کی زندگی کے آخری پانچ سال تھے جن میں جمل صفین اور نہروان کی لڑائیں ہوئی اور امام حسین ان میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی نصرت اور حمایت میں شریک ہوئے اور شجاعت کے جوہر بھی دکھلائے .40ھ میں جناب امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السّلام مسجد کوفہ میں شہید ہوئے اور اب امامت و خلافت کی ذمہ داریاں امام حسن کے سپرد ہوئیں جو حضرت امام حسین کے بڑے بھائی تھے .حسین نے ایک باوفا اور اطاعت شعار بھائی کی طرح امام حسن علیہ السّلام کاساتھ دیا اور جب امام حسن نے اپنی شرائط کے تحت جن سے اسلامی مفاد محفوظ رہ سکے امیر معاویہ کے ساتھ صلح کرلی تھی تو امام حسین بھی اس مصلحت پر راضی ہوگئے اور خاموشی اور گوشہ نشینی کے ساتھ عبادت اور شریعت کی تعلیم واشاعت میں مصروف رہے مگر معاویہ بن ابو سفیان نے ان شرائط کو جو امام حسن کے ساتھ ہوئے تھے بالکل پورا نہ کیا خود امام حسن کو سازش ہی سے زہر دے کر شہید کروا دیا گیا- حضرت علی بن ابی طالب کے ماننے والوں کو چن چن کے شہید کیا گیا- سر قلم کئے گئے اور سولی پر چڑھایا گیا اور سب سے آخر اس شرط کے بالکل خلاف کہ معاویہ کو اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر کرنے کا حق نہ ہو گا۔ معاویہ نے یزید کو اپنے بعد کے ليے ولی عہد بنا دیا اور تمام مسلمانوں سے اس کی بیعت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اور زور و زر دونوں طاقتوں کو کام میں لا کر دنیائے اسلام کے بڑے حصے کا سر جھکوا دیا گیا-
لیکن امام حسین علیہ السّلام نے قیام کا فیصلہ کیا۔ اور ارشاد فرمایا” مجھ جیسا (حسین) اس (یزید) جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا”. لیکن آپ علیہ السّلام کو اپنی مصلحت کے تحت مدینہ سے نکلنا پڑا اور مکہ میں حج کے موقع پر مسلمانوں سے خطابت کا ارادہ کیا۔ تاکہ مسمانوں کو قیام کےلیے تیار کریں لیکن امام نے حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے حج کےلیے باندھے گئے احرام کھول کر مکہ سے کوفہ جانے کا فیصلہ کیا۔
امام حسین عليہ السلام نے مقام بیضہ پر خطبہ دیا ۔ جس میں اپنے مقاصد کی وضاحت کی ۔ آپ نے فرمایا:

” لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم ، محرمات الہٰی کے حلال کرنے والے ، خدا کا عہد توڑنے والے ، خدا اور رسول کی مخالفت اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قول و فعل کے ذریعہ سے غیرت کا اظہار نہ کیا تو خدا کا حق ہے کہ اس شخص کو اس بادشاہ کے ساتھ دوزخ میں داخل کر دے۔ لوگو! خبردار ہو جاؤ ۔ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی اور رحمٰن کی اطاعت چھوڑ دی ہے۔ ملک میں فساد پھیلایا ہے۔ حدود الہٰی کو معطل کر دیا ہے ۔ مال غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں۔ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئی حرام کر دیا ہے۔ اس لیے مجھ کو غیرت میں آنے کا زیادہ حق ہے”.
یہاں سے امام حسین علیہ السّلام نے کوفہ جانے کا ارادہ رکھتے تھے مگر راستے میں کوفہ کے حالات سے آگاہی کے بعد کربلا کا رخ کیا ۔ جہاں حر ابنِ ریاحی کی کمان میں ایک ہزار فوج نے یزید ملعون کے حکم پر قافلہء حسینی کا راستہ روکا اور جنگ کےلیے مجبور کیا۔
آل رسول ،اصحاب رسول اور اصحابِ علی و حسین علیہما السّلام واجمعین کا سات محرم سے پانی روک دیا ۔ جس سے خیمہ سادات میں بچوں کے بلکنے کی صدائیں بلند ہوتی رہیں لیکن فوج یزید اس وقت مال و زر کی لالچ میں اندھی ہوچکی تھی۔ جو کہ خون حسین علیہ السّلام کی پیاسی تھی۔ بالآخر عاشورہ کے روز امام حسین علیہ السّلام کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ بے دردی سے مسلمانوں نے اپنے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کو کرب و بلا میں شہید کر دیا۔ جو اصل خلافت و امامت کے حقدار تھے ۔

محمد ابن جریر طبری، ابن خلدون، ابن کثیر غرض بہت سے مفسرین اور مورخین نےلکھا ہے کہ ابن زیاد نے خاندان رسالت کو کربلا میں قتل کیا اور قیدیوں کو اونٹوں پر شہیدوں کے سروں کے ساتھ دمشق بھیج دیا ۔ دمشق میں بھی ان کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہ ہوا۔

حديث نبوی کی روشنی میں شہادت امام حسین علیہ السّلام کی پیشین گوئی جو کہ شہادت حسین علیہ السّلام سے کئی سال پہلے بیان کردی تھیں۔

ابن عساکر نے حسین ابن علی علیہ السّلام سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
کأنی أنظر إلی کلب أبقع يلغ فی دماء اهل بيتی ۔۔۔ گویا کہ میں ایک سفید داغوں والے کتے کو دیکھ رہا ہوں جو میرے اہل بیت کے خون میں منہ مار رہا ہے۔ (کنز العمال، حدیث : 34322)

محمد بن عمرو بن حسین بیان کرتے ہیں :کنا مع الحسين بنهر کربلا فنظر إلي شمر ذي الجوشن فقال : صدق اﷲ ورسوله! فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کائي أنظر : إلي کلب أبقع يلغ في دماء أهل بيتي و کان شمر أبرصہم۔
ترجمہ “امام حسین کے ساتھ کربلا کے دریا پر موجود تھے تو آپ نے شمر کے سینے کی طرف دیکھا اور فرمایا : اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ گویا میں اس سفید داغوں والے کتے کی طرف دیکھ رہا ہوں جو میرے اہل بیت کے خون میں منہ مار رہا ہے اور شمر برص کے داغوں والا تھا”۔(کنز العمال فضائل اهل بيت، قتل حسين، 13)
چنانچہ حسین ابن علی نے نشانی دیکھ کر فرمایا ہاں یہ بدبختی تیرا ہی مقدر ہے، وہ بدبخت آگے بڑھا اور سر کو تن سے جدا کر دیا۔

سلیمان ابن احمد ابن الطبرانی نے زہری سے روایت کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔لما قتل الحسين بن علی لم يرفع حجر بيت المقدس الا وجد تحته دم عبيط. یعنی “جب حسین بن علی کو شہید کردیا گیا تو بیت المقدس کا جو پتھر بھی اٹھایا جاتا اس کے نیچے تازہ خون پایا گیا”۔(معجم الکبير، 3، حدیث : 28347)۔

امام طبرانی نے امام زہری سے ایک اور روایت بھی نقل کی ہے۔ انہوں نے کہا! مارفع حجر بالشام يوم قتل الحسين بن علی الاعن دم “شہادت یعنی حسین ابن علی کے دن شام میں جو بھی پتھر اٹھایا جاتا تو وہ خون آلود ہوتا “(معجم الکبير، حدیث : 2835 اورمجمع الزوائد، 9 : 194)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں