Personality An Introduction 85

(ایک شخصیت ایک تعارف)ریاض/اعجاز احمد طاہر اعوان

“”” ایک شخصیت ایک تعارف””

ریاض/اعجاز احمد طاہر اعوان
تصاویر/ولید اعجاز اعوان

آج ہم آپکی ملاقات ایک طویل وقفہ کے بعد “”PNP”” کے مستقل سلسلے “”ایک شخصیت ایک تعارف”” کے حوالے سے پاکستان کے نامور اور شبعہء آرٹ سے منسلک شہزاد احمد سے کرواتے ہیں، جو کسی بھی لحاظ سے کسی طرح بھی تعارف محتاج نہیں ہیں، ادارہ “”PNP”” نے آج سے تقریبا” دو سال قبل مختلف شعبوں میں گرانقدر خدمات سر انجام دینے والی شخصیات کی پس پردہ خداداد صلاحیتوں کو منظر عام پر لائے کی ایک چھوٹی سی کوشش کا آغاز کیا اور اب تک الحمداللہ، لاتعداد ایسی شخصیات کو متعارف کرایا جا چکا ہے، جس کا سارا کریڈٹ اور صلہ ادارہ “”PNP”” کی وسیع تجربہ کی حامل پوری صحافتی ٹیم کو ہی جاتا ہے،

شہزاد احمد گزشتہ 25 سال سے مملکت میں مقیم ہیں، اور ہر طرح سے اللہ کی دنیاوی نعمتوں کا دل کے ساتھ شکر ادا کرتے ہیں، 1990 میں “”روزنامہ نوائے وقت “” لاہور میں بطور “”آرٹ ڈائریکٹر “” اپنی صحافتی ذمہ داریوں کا آغاز کیا، اور 1999 میں آرٹ سیکشن کے انچارج کے عہدے پر ترقی حاصل کر لی، پاکستان کے پہلے “”روزنامہ نوائے وقت”” نے “”ڈیجیٹل اخبار”” کی ڈیزائینگ کا اعزاز حاصل کیا، یہ وہ وقت تھا کہ جب لاہور میں “”روزنامہ جنگ”” جیسا ادارہ بھی ابھی “”ڈیجیٹل ڈیزائن”” میں نہیں ہوا تھا۔

شہزاد احمد نے اپنی گفتگو کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ میرا مزید رزق مجھے پاکستان سے سعودی عرب جدہ “”رزق معاش”” کے لئے 17 مئی 1999 کو لے آیا۔ یہ میری زندگی کا اپنے ملک سے باہر بین الاقوامی پہلا ہی سفر تھا۔ مجھے اس وقت کی “”ایس آر پی سی”” کمپنی نے اپنے پراجیکٹ “”ہفت روزہ اردو میگیزن”” عرب دنیا میں اردو زبان میں شائع ہونے والا عرب دنیا کا پہلا اردو زبان میں “”ہفت روزہ اردو میگزین”” میں بطور “”آرٹ ڈیزائینگ”” کے لئے منتخب کیا تھا، جدہ میں شعبہء صحافت اور پاکستان کی قدآور اور سینئر صحافتی ٹیم کے سینئر نصیر ہاشمی،سید اطہر ہاشمی، روح الامین، سید مظفر اعجاز، اور عبدالباری انجم سے مجھے پہلی بار ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔

“”ہفت روزہ اردو میگزین”” کی پہلے روز سے اشاعت سے لے کر آخری شمارے تک 555 شماروں تک آرٹ کی ساری ڈیزائینگ کی ذمہ داریوں کو پوری محنت اور کاوش سے پورا کیا، اور 500 میگزین کے “”سرورق””خود تیار کئے، اس کے علاوہ “”اردو میگزین “” کے لئے خصوصی ہفتہ وار “” ایک دن کا ایڈیٹر کے نام سے نوجوان بچوں اور بچیوں کی کاوشوں کو اجاگر کرنے کے لئے اور ان کی اعلی صلاحیتوں پر مبنی فیچر کا بھی خصوصی سلسلہ شروع کیا جس نے اس وقت کے دور میں خاصی پذیرائی حاصل کی۔ ہر ہفتہ باقاعدگی کے ساتھ 64 صفحات پر مشتمل میگزین نکالنا اور وہ بھی انتہائی مختصر صحافتی ٹیم کے ساتھ بہت ہی مشکل اور کھٹن تھا؟

شہزاد احمد نے آج سے تقریبا” 14 سال قبل بین الاقوامی اور شہرت کا حامل عالمی معیار اور اسلامی کتب کے اشاعتی ادارہ “”مکتبہ دارالسلام “” میں بطور آرٹ ڈائریکٹر اپنی ذمہ داریوں کو بڑے ہی احسن طریقہ سے پورا کر رہے ہیں ابتداء میں ادارہ کے اندر اس شعبہء کے لئے 8 افراد تھے مگر اب پورے ادارہ کے اندر صرف میں واحد یہ پوری ذمہ داریوں کو پورا کر رہا ہوں۔ شہزاد احمد نے مزید کہا کہ مکتبہ دارالسلام کے مدیر اعلی مولانا عبدالمالک مجاہد کی سربراہی میں چلنے والا ایک ایسا عالمی اشاعتی ادارہ ہے کہ جو کتاب و سنت کی اشاعت کے لئے چار براعظموں میں ہمہ تن مصروف عمل ہے۔ اور دنیا بھر کی 27 سے زائد مختلف زبانوں کے متراجم اور قرآن پاک کی اشاعت کا اعزاز بھی حاصل کر چکا ہے۔ یہ ادارہ باقاعدہ طور پر 1992 میں قائم کیا گیا۔ اس وقت تقریبا” اب تک یہ ادارہ 1400 سو سے زائد اردو، عربی اور انگریزی کی معیاری کتب شائع کر چکا ہے۔

شہزاد احمد نے کہا کہ میری کامیابی اور ترقی میں میرے والدین کی دعائیں پہلے نمبر پر ہمیشہ اور ہر لمحہ میرے رہیں اور پھر دوسرے نمبر پر میری شریک حیات سائرہ شہزاد احمد نے ہر اچھے اور برے وقت میں شب و روز میرا بھرپور ساتھ دیا۔ جس کی بدولت آج میں کامیابی کی آخری سیڑھی اور منزل مقصود پر پہنچنے میں کامیاب ہوا ہوں، اگر سائرہ شہزاد احمد میرے شانہ بشانہ ساتھ کھڑی نہ ہوتی تو شائد مجھے اپنی ترقی میں مزید سال لگ جاتے، میری شریک حیات سائرہ شہزاد احمد نے میری زندگی کے ہر مشکل وقت کا سامنا خندہ پیشانی، جرآت دلیری اور ہمت سے دیا۔ جس کی وجہ سے آج میرے گھرانے کے اردگرد خوشیاں ہی خوشیاں ہیں اس موقع پر میں اپنے “”محسن انسانیت”” اور ادارہ کے محترم عبدالمالک مجاہد صاحب کے تعاون اور راہنمائی کا بھی دل سے شکر گزار ہوں۔ میری کامیابی اور میری منزل کو قریب لانے میں اس کے پیچھے ان کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ میرے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں جو اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اور اپنے والدین کا نام بھی روشن کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔

شہزاد احمد نے آخر میں کہا کہ آج کے دور میں ایمانداری اور مکمل ذمہ داری سے صحافت کے فرائض ادا کرنا بہت ہی مشکل ہو گیا یے، صحافت کو صرف ایک آمدن اور بلیک میلنگ کا ذریعہ ہی بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ ملک کی صحافت “” رول ماڈل”” کے اعزاز سے کوسوں دور نکل گئی ہے۔ ملک کی صحافت ترقی کی بجائے دن بدن تنزلی کی طرف ہی جا رہی ہے، اس کو اس روش سے نکالنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ شعبہ صحافت سے منسلک اپنے نام کے ساتھ سے “”سیاست”” کا لفظ ہٹھا دیں، تب جا کر ملک کے اندر ایک معیاری اور حقیقی صحافت جنم لے گئی.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں