گزشتہ روز پاکستان قومی زبان تحریک اور ظفر علی خان ٹرسٹ کے زیر اہتمام بانیان پاکستان کے افکار کے حقیقی وارث' نظریہ پاکستان کے محافظ و مبلغ' درویش صفت ' ولی اللہ' محقق'مورخ' ادیب ' کالم نویس' سابق وفاقی سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر صفدر محمود کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ایک تعزیتی نشست کا انعقاد ہوا 395

گزشتہ روز پاکستان قومی زبان تحریک اور ظفر علی خان ٹرسٹ کے زیر اہتمام بانیان پاکستان کے افکار کے حقیقی وارث’ نظریہ پاکستان کے محافظ و مبلغ’ درویش صفت ‘ ولی اللہ’ محقق’مورخ’ ادیب ‘ کالم نویس’ سابق وفاقی سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر صفدر محمود کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ایک تعزیتی نشست کا انعقاد ہوا

(سٹاف رپورٹ،تازہ اخبار،پاک نیوز پوائنٹ )

جس میں مرحوم ڈاکٹر صفدر محمود سے محبت کرنے والے ‘ ان کے عقیدت مند’ رفقائے کار کثیر تعداد میں شریک ہوئے.مقررین میں پاکستان کی انتہائی علمی ‘ ادبی ‘ صحافتی’ سیاسی ‘ دانشوروں کی نمائندہ چنیدہ شخصیات شامل تھیں۔جنہوں نے انتہائی خوبصورت الفاظ میں مرحوم کی قومی خدمات’ لگن اور جذبوں کو پیش کیا۔ مقررین میں جاگو تحریک کے بانی قیوم نظامی’ اوصاف کے مدیر سرفراز سید’ اسلم کمال’ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ’ اوریا مقبول جان’ ڈاکٹر فرید پراچہ’ علی عمران شاہین’ مجیب الرحمٰن شامی’ لاہور کالج کی شعبہ انگریزی کی سابق ڈین ڈاکٹر پروفیسر ہمالہ خالد’ پاکستان قومی زبان تحریک کے صدر جمیل بھٹی’ فاطمہ قمر’ قلم فاؤنڈیشن کے سربراہ عبدالستار عاصم شامل تھے۔تمام مقررین نے مرحوم کی پاکستان سے محبت’ قائد و اقبال سے وابستگی کی تعریف کی ۔قیوم نظامی نے مرحوم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ “میرے تعلقات ڈاکٹر صاحب سے برادرانہ تھے۔ میں نے جب ان کی ایک تحریر پر اپنی ایک تحقیق کے حوالے سے ان کی توجہ مبذول کروائی جس میں ان کی تحقیق کچھ مشکوک تھی تو ڈاکٹر صاحب نے مختلف ذرائع سے خود بھی معلوم کر کے جب میری بات کی حقانیت ثابت ہوئئ تو انہوں نے نہ صرف میرے شکریہ ادا کیا بلکہ معذرت بھی کی یہ بات ان کے اعلی کردار کا مظہر تھی” اورنٹئیل کالج کے شعبہ اردو کے سربراہ ( ڈائریکٹر) ڈاکٹر پروفیسر ذاہد منیر عامر ںے بھی ڈاکٹر صاحب کے تحقیقی مزاج کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب اپنی کسی بھی تحریر کی اگر سند شواہد کی روشنی میں غلط ثابت ہورہی ہوتی تو وہ اس کو بہت اعلی ظرفی اور خندہ پیشانی سے قبول کرلیتے۔ ڈاکٹر صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کی کتابوں کے ترجمے انگریزی کے ساتھ ساتھ عربی و فارسی میں بھی ہوئے ہیں۔سرفراز سید نے اپنی 56 سالہ صحافتی زندگی میں سے ڈاکٹر صفدر محمود کی یادوں کا ذکر انتہائی اختصار و محبت سے پیش کیا ۔ انہوں نے اس پر دکھ کا اظہار کیا کہ فی الحال پاکستان میں ڈاکٹر صفدر محمود جیسے اعلی پائے کا کوئئ محقق نظر نہیں آتا جو نظریہ پاکستان کو اتنی عمدگی و دلائل سے پیش کرسکتا ہو.پروفیسر ہمالہ خالد صاحبہ نے ڈاکٹر صفدر محمود کے ساتھ اپنے دوران ملازمت کی یادوں کو تازہ کیا۔ کہ ڈاکٹر صفدر محمود ایک سچے اور کھرے پاکستانی تھے ۔ پاکستانی بچوں کو اب کوئئ تاریخ پاکستان بتانے والے نہیں رہے موجودہ نسل کو پاکستان کےقیام کے اغراض و مقاصد کا کچھ بھی علم نہیں عبدالستار عاصم نے ںہت عقیدت و محبت سے ڈاکٹر صفدر محمود سے اپنی وابستگی کو بیان کیا۔ وہ ڈاکٹر صاحب کی بہت سی کتابوں کے ناشر ہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود کی جس دن سے وفات ہوئی وہ روزانہ کی بنیاد پر ان کے لکھے گئے کالم ہمیں بھیجتے ہیں ۔ ان شاءاللہ ڈاکٹر صفدر محمود کی شخصیت پر لکھی گئ تحریر کو وہ کتاب کی شکل میں پیش کرنے کا اراداہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ’ صاحب نے تجویز پیش کی کہ جامعات میں ڈاکٹر صفدر محمود کے نام کی مسند ( چئیر) قائم کی جائے ۔ کہنہ مشق صحافی مجیب الرحمٰن شامی نے کہا ڈاکٹر صفدر محمود کی وفات ایک عظیم قومی سانحہ ہے۔ انہوں نے پوری زندگی نظریہ پاکستان کی اشاعت و ترویج میں بسر کی۔ نظریہ پاکستان کے حوالے سے ابہام پھیلانے والوں کا جواب مدلل انداز میں دیا۔ مجیب الرحمٰن شامی نے نفاذ اردو کے حوالے سے حکومتوں اور عدالتوں کی کوتاہی پر بہت افسوس کا اظہار کیا۔ 75 سال ہوگئے ہیں ابھی تک پاکستانی قوم اپنی زبان کے نفاذ کے لئے عدالتوں کے دھکے کھا رہی ہے۔ یہ ملک اسلام اور اردو ہی کے لئے ہی بنا تھا. اگر اس کو نافذ نہیں کرنا تھا تو قیام پاکستان کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ مجیب الرحمٰن شامی صاحب نے نفاذ اردو کے لئے پاکستان قومی زبان تحریک کے رہنماؤں محترم جمیل بھٹی’ فا طمہ قمر ‘ پروفیسر سلیم ہاشمی کی کوششوں کی حوصلہ افزائی فرمائی ۔علی عمران شاہین نے ڈاکٹر صفدر محمود کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صفدر محمود مرے نہیں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنے افکار میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اب تمام نوجوان ڈاکٹر صفدر محمود بنیں گے۔ ان کے افکار اور نظریہ پاکستان کو عملی شکل میں دینے میں بھرپور کردار ادا کریں گے۔ پاکستان قومی زبان تحریک کی رہنما فا طمہ قمر نے کہا کہ ڈاکٹر صفدر محمود سے میرا قاری کا تعلق دور طالبعلمی سے ہے جب ہم نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر ایک مقالہ لکھا تو ہمارے اساتذہ نے ہمیں ڈاکٹر صفدر محمود کی تصنیف ” پاکستان کیوں ٹوٹا” سے استفادہ کرنے کا مشورہ دیا۔ بس اس وقت سے ڈاکٹر صاحب سے قاری کا رشتہ قائم ہوگیا لیکن ان سے تعلق گزشتہ حکومت میں ماروی میمن کے آٹھ زبانوں کو قومی زبان بنانے کے بل کے حوالے سے ہوا۔جب ہم نے انہیں اس زہر آلود بل کی شر انگیزیوں سے متعلق بتایا۔ پھر انہوں نے اس پر انتہائی مدلل ‘ تحقیقی تحریر لکھی۔ یہ بتایاکہ یہ بل پاکستان کی یکجہتی ‘ سالمیت کے خلاف ہے نیز مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجہ اردو نہیں بلکہ بھارتی مداخلت ‘ پاکستان کے نااہل جرنیلوں اور اقتدار کے بھوکے سیاستدان کی ہوس اقتدار کا نتیجہ ہے’ ڈاکٹر صاحب نفاذ اردو مشن سے وابستگی کے باعث ہم سے خصوصی شفقت فرماتے۔ اپنی تصنیف کو بہت محبت سے ہمیں بھجواتے۔ ڈاکٹر صفدر محمود بانیان پاکستان کے افکار کے حقیقی وارث ہیں انہوں نے جس طرح بانیان پاکستان کے افکار کا تحفظ کیا ہے اس بناء پر ہم ان کو روحانی فرزند بانیان پاکستان کہتے تھے۔ ہم یہاں قرار داد پیش کرتے ہیں کہ ڈاکٹر صفدر محمود کی لکھی گئ مستند تاریخ کو لازمی نصاب میں شامل کیا جائے! تمام شرکاء نے محترمہ کی پیش کردہ قرارداد کی تائید کی۔ ڈاکٹر فرید پراچہ صاحب نے بہت مختصر و جامع الفاظ میں مرحوم کو خراج تحسین پیش کیا۔ پروگرام کے آخر میں پاکستان قومی زبان تحریک کے صدر جمیل بھٹی صاحب نے تمام مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا.
جمیل بھٹی صاحب نے کہا کہ ” دوران ملازمت ڈاکٹر صفدر محمود مختلف منصوبوں میں ہمارے نگران ( مینٹر) تھے۔ وہ ایک عظیم محب وطن ‘ پاکستان کی محبت سے سرشار شخصیت تھے
پاکستان قومی زبان تحریک نے فیصلہ کیا ہے کہ ایسے لوگ جو پاکستان کی تعمیر میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ہم گاہے بگاہے یادگاری نشستیں منعقد کرتے رہیں گے”
اس باوقار خوبصورت نشست کی نقابت کہنہ مشق صحافی ظفر علی خان ٹرسٹ کے معتمد عام ( سیکرٹری) محترم تاثیر مصطفی نے کی۔ جنہوں نے دوران نقابت ڈاکٹر صفدر محمود سے وابستہ اپنی دو تین یادیں بھی بیان کی۔ ہم نے اس تقریب کے لئے ڈاکٹر صفدر محمود کے بچوں کو بطور خاص دعوت دی تھی ۔ لیکن ان کے دو بچے اپنی علالت کی وجہ سے شریک نہ ہوسکے۔ کاش ! کہ وہ اس تقریب میں شریک ہوتے اور اپنے والد مرحوم کی پزیرائی دیکھتے کہ پاکستان کے چنیدہ ‘ باشعور لوگو نے ان کے والد مرحوم سے کتنی محبت و عقیدت کا اظہار کیا۔ تقریب کے اختتام پر پاکستان قومی زبان تحریک کے رہنما محمد فیض صاحب نے مرحوم ڈاکٹر صفدر محمود اور خالد اعجاز مفتی کے والد اور پاکستان قومی زبان تحریک کے مرحوم صدر عزیز ظفر آزاد کی مغفرت کے لئے بھی دعا کروائی۔ چائے کی تواضع کے ساتھ یہ خوبصورت نشست اختتام پذیر ہوئی۔ پروگرام میں جن لوگوں نے شرکت کی ہم ان کے تہہ دل سے ممنون ہیں۔ پروگرام کے حاضرین بھی اپنے اپنے شعبوں کے ماہر تھے۔ جن میں ڈاکٹر مختار عزمی ‘ انجیںئر توصیف خاور’ جاوید اقبال بھٹی ‘ رانا امیر احمد خان’ ثریاشاہد’ رانا شاہد’ مجلس قومی مشاورت کے رفیق نثار اور محمد شہزاد’ علی عمران شاہین’ ‘ پروفیسر مظہر عالم’ حافظ صادق’ ثریا شاہد’ حافظ غلام صابر’ محمد فیض’ معظم احمد’ پروفیسر سلیم ہاشمی’ محمد علی بھٹی’ حرا آزاد’ مظہر وٹو’ امتیاز حسین سبز واری’ عمر شریف ‘ افتخار احمد’: ممتاز راشد لاہوری’ سید عمران شاہ’ علی عمران شاہین’بلال منیر’ ظفر اپل’ پروفیسر مقبول چوہدری’ ملک غلام علی’ قاضی اکرام بشیر’ رانا امیر احمد خان’ محمد اسلم’ محمد شہزاد ‘ جاوید اقبال بھٹی’ حارث جمیل’ فرح زیبا’ شامل تھے!
ظفر علی خان ٹرسٹ کے صدر نشین ( چئیر مین) جو ڈاکٹر صفدر محمود کے رفیق کار بھی تھے۔انہوں نے فون کر کے اپنی علالت کے بارے میں بتایا کہ اپنی بیماری کے سبب وہ تقریب میں شرکت نہیں کرسکیں گے۔ اگرچہ کہ ان کی بہت خواہش تھی کہ وہ اس نشست میں شرکت کریں۔پہلے پاکستان قومی زبان تحریک ہی اس نشست کا انعقاد کررہی تھی پھر محترم خالد محمود صاحب نے ہمیں فون کر کے بہت خلوص و محبت سے کہا کہ اس نشست میں اپ ظفر علی خان ٹرسٹ کو بھی شامل کرلیں یہ ان کی ڈاکٹر صفدر محمود سے محبت کا عملی اظہار ہے
ڈاکٹر صفدر محمود جیسی قومی شخصیت ‘ قومی ہیرو کے افکار کے حوالے سے پاکستان قومی زبان تحریک نے مرحوم کی یاد میں نشست رکھنے کا آغاز کیا اگلے ھفتے میں ڈاکٹر صاحب کے نام پر دو نشستیں دو مختلف شہروں میں منعقد کی جارہی ہیں.ہم پاکستان سے محبت کرنے والے نظریہ پاکستان کی حقیقت کو جاننے والے بانیان پاکستان سے محبت کرنے والے تمام پاکستانیوں سے ملتمس ہیں کہ وہ ڈاکٹر صفدر محمود جیسی عظیم شخصیت کی یاد میں اپنے اپنے شہروں میں تعزیتی نشستیں رکھیں۔ اس لئے کہ وہ قوم کے محسن ہیں وہ اپنے قلم سے پوری زندگی قوم کو سیدھا سچا اور کھرا راستہ دکھاتے رہے ہیں۔ان کے احسانات کا بدلہ یہ قوم کبھی نہیں چکاسکتی۔ہاں لیکن ان کے افکار کی تبلیغ کر کے مرحوم کے لئے صدقہ جاریہ کاسبب بن سکتی ہے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں