یومِ دفاع پاکستان تحریر : زبیر خان بلوچ سعودی عرب 448

یومِ دفاع پاکستان تحریر : زبیر خان بلوچ سعودی عرب

یومِ دفاع ہر سال 6 ستمبر کو پاکستان میں بطور ایک قومی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن پاک بھارت جنگ 1965ء میں افواج کی دفاعی کارکردگی اور قربانیوں کی یاد میں منایا جاتا ہے.
یومِ دفاع، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اُس دن کی یاد میں منایا جاتا ہے جس دن ہماری افواج نے 1965ء میں ہندوستانی افواج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اور اپنے ملک کا دفاع کیا تھا۔ اسے ہر سال 6 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔
دشمن نے 6 ستمبر 1965ء کو ہمارے ملک پر حملہ کیا۔ یہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی افواج کی پیش قدمی روکنے کے لیے ردِعمل تھا۔ دشمن نے مرکزی طور پر لاہور، سیالکوٹ اور سندھ کے صحرائی علاقوں پر حملہ کیا تھا۔ 22 ستمبر 1965ء تک جنگ جاری رہی جس کے بعد فریقین نے اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام جنگ بندی کو قبول کرلیا تھا.
آزادی ایک نعمت ہے۔ آج ہم جو سکھ کا سا سانس لے رہے ہیں یہ اللہ پاک کا بہت بڑا احسان ہے۔ پاکستان کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کی ہڈیاں اینٹوں کی جگہ اور خون پانی کی جگہ استعمال ہوا ہے۔ اس ملک کی قدر کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جس نے اپنے خاندان بہن، بھائی اور عزیز و اقارب قربان کیے۔
ماؤں کے بچے ان کی آنکھوں کے سامنے شہید کیے گئے۔ کئی بچے یتیم ہوئے اور ساری زندگی والدین کی شفقت کو ترستے رہے۔ کتنی ماؤں بہنوں نے نہروں اور کنوؤں میں ڈوب کر پاکستان کی قیمت ادا کی۔ یہ ملک مصیبتوں اور مشکلوں سے حاصل کیا گیا ہے اور لاکھوں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔
چھ ستمبر 1965 کی شب بھارتی فوج جنگ کا اعلان کیے بغیر بین الاقوامی بارڈر لائن پار کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوئی۔ بھارتی جرنیلوں کا منصوبہ تھا کہ چھ ستمبر کی صبح لاہور کی سڑکوں پر بھارتی ٹینک اس وقت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری کو سلامی دیں گے اور شام کو لاہور جیم خانہ میں کاک ٹیل پارٹی کے دوران بیرونی دنیا کو خبردیں گے کہ اسلام کا قلعہ سمجھی جانے والی ریاست پر کفار کا قبضہ ہو چکا ہے لیکن بھارت کے ارادوں اور منصوبوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب ان کی افواج کو مختلف محاذوں پر شکست اور پسپائی کی خبریں ملنے لگیں.
جنگوں کی تاریخ میں دوسری جنگ عظیم دوئم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی سیالکوٹ ایک علاقے چونڈہ کے مقام پر لڑی گئی جہاں طاقت کے نشے میں چور بھارتی فوج چھ سو ٹينک لے کر پاکستان ميں داخل ہوگئی تھی۔ پاکستان فوج کی زبردست جوابی کارروائی نے دشمن کے 45 ٹینک تباہ کر دیے اور کئی ٹینک قبضے میں لے لیے تھے۔ اسی طرح پانچ فیلڈ گنیں قبضہ میں لے کر بہت سارے فوجی قیدی بھی بنائے گئے۔ جنگ کا پانسہ پلٹتا دیکھ کر بھارتی فوجی حواس باختہ ہوگئے اور ٹینک چھوڑ کرفرار ہونے لگے تو پاک فوج نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن کے علاقے میں کئی چوکیوں پر قبضہ کر لیا۔ اسی لیے چونڈہ کے مقام کو بھارتی ٹینکوں کیلئے ٹینکوں کا قبرستان کہا جاتا ہے.
لاہور میں پاک فوج کی 150 سپاہیوں کی ایک کپمنی نے 12 گھنٹے تک ہندوستان کی ڈیڑھ ہزار فوج کو روکے رکھا اور ہماری پچھلی فوج کو دفاع مضبوط کرنے کا بھر پور موقع فراہم کیا۔
لاہور میں کے ایک اور جنگی محاذ پر میجر عزیز بھٹی پہرا دے رہے تھے۔ وہ اس وقت لاہور سیکٹر کے علاقے برکی میں کمپنی کمانڈر تعینات تھے۔ میجر عزیز مسلسل پانچ دن تک بھارتی ٹینکوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے رہے اور بلآخر 12 ستمبر 1965 کو بھارتی ٹینک کا گولہ چھاتی پر کھایا اور جامِ شہادت نوش کر گئے۔
جب دشمن لاہور پر حملہ آور ہوا تو اس وقت میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر کے علاقے برکی میں کمپنی کمانڈر تعینات تھے۔ میجر عزیز مسلسل پانچ دن تک بھارتی ٹینکوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے رہے، 12 ستمبر 1965 کو بھارتی ٹینک کا گولہ چھاتی پر کھایا اور جامِ شہادت نوش کی.
جنگِ ستمبر کے دوران بھارتی فوج نے 17 دن میں 13 حملے کئے۔ ان کی افواج تعداد اور جنگی ساز و سامان کے حوالے سے کئی گناہ طاقتور تھی جبکہ پاکستانی فوج تعداد اور تیاری کے حساب سے بھارت سے بہت کم تھی لیکن پاکستانی جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر مسلسل 17 دن تک دشمن کو لاہور میں داخل ہونے سے روکے رکھا اور ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔
وطن کے ان بہادر سپوتوں میں کچھ کے کارنامے تو ایسی لازوال داستانیں ہیں کہ جنہیں رہتی دنیا تک جرات و بہادری کی جاویداں مثالوں کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ایسے جرات مند شہیدوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے انہیں ملک کے سب سے عظیم فوجی اعزاز ’’ نشان حیدر ‘‘ سے نوازا گیا.
نشانِ حیدر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے۔ اس اعزاز کو شجاعت و بہادری کے پیکر، حیدر کرار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہ نشان صرف ان فوجی جوانوں کو نصیب ہوتا ہے جنہوں نے وطن کے لیے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ ان میں میجر طفیل نے سب سے بڑی عمر یعنی 44 سال میں شہادت پانے کے بعد نشان حیدر حاصل کیا، نشان حیدر پانے والے باقی شہداء کی عمریں 40 سال سے بھی کم تھیں۔ سب سے کم عمر نشان حیدر حاصل کرنے والے راشد منہاس تھے جنہوں نے 20 سال 6 ماہ کی عمر میں شہادت پر نشان حیدر اپنے نام کیا.
ہم سب کو اپنی مضبوط افواج پر اور ملک کی زمینی سرحدوں کی حفاظت اور ملکی سلامتی یقینی بنانے میں ان کے آئینی کردار پر فخر کرنا چاہیے۔ ہم بھلے ہی معاشی مسائل کا شکار ہوں مگر ہم غیر ملکی خطرات سے محفوظ ہیں کیوں کہ دنیا میں کئی لوگوں کے مطابق ہماری افواج ایشیاء کی بہترین افواج میں سے ہیں۔ جب ہم اپنے ماضی کے جنگی ہیروز کو سلیوٹ کرتے ہیں تو ہم ان کی قربانیوں کی تکریم کرتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں