محبت
وفا ہے
جانے والوں سے ملنے خاطر
جسموں کو اپنی روحوں پہ لادے
خانہ برباد
زمیں کے دھبے
اداس راتوں میں روتے سوتے
آنسو سے اپنے غم کو بھگوتے
دل برباد کو پہلو میں دبائے
آنکھوں کے جلتے عدسوں کے پیچھے
دور چھپ کر
نوحہ کناں رہے ہم
وہ جو چلے گئے
اس پار
ہم سے دامن چرا کے نکلے
انہی سے ملنے
انہی کو تکنے
جگ کے سارے سورج بجھا کر
ہم جو منتظر ہیں
کہ وہ اک بار لوٹے
تڑپ کے اس کو
باہوں میں بھر لیں
کبھی نہ جانا
یہ عہد کر لیں
کیسا عجب ہے کہ
ہم ہی جو چل دیں
اداس شاموں کے کہرے میں گھل کر
گلاب ہونٹوں سے
امرت سے ٹپکیں
پھر سے کہیں ہم
جنم جو لے لیں
اور پائیں ان کو ہنستا
ان کے بدن سے لپٹ ہی جائیں
کیا عجب ہو کہ تھے ہم جس سے سہمے
موت کے نام سے لرزتے
وہ اک نئے جہاں کا
اک حسیں زندگی کا
فقط آغاز ہی تھا
یہاں کے کھوئے
وہاں جا پائیں
کیسا غضب ہو
کہ جب یہ جانیں
بس یونہی روئے
چند آخری پل
یونہی کھوئے
رفاقتوں کی
جاتی ساعتوں کی
قدر کرتے
مل کر ہنستے
خوب ملتے
قصے سناتے
پیار کرتے
شرط وفا نبھاتے
وعدہ کر کے مکر نہ جاتے
ایک پل کا قصہ ہے ہمارا
ادھر سے نکلے
ادھر کو پہنچے
ملنا تو ہوگا
مگر شرط وفا ہے
محبت کا بس اک وفا صلہ ہے
نمیرہ محسن
