نمیرہ محسن 380

کشکول – نمیرہ محسن

کشکول
اسے لگ رہا تھا اسکی کوکھ ایک بھکاری کا پیالہ بن گئی ہے۔ کل ہی کی تو بات تھی جب ہر بچہ اسی کوکھ میں سانس لیتا اٹھ کر بھاگتا پھرتا تھا۔ آج اسے لگا کہ اس نے سب کے پیر پکڑلیے ہیں، بالکل کسی زمین کے دلدلی ٹکڑے کی مانند۔ کنیز فاطمہ ، ہر بچے کا شکریہ ادا کر رہی تھی۔ اپنی آخری قوت گویائی کو استعمال میں لا کر، الفاظ کے پھٹے ادھڑے ٹکڑوں کو اپنی محبت کی گوند سے جوڑتی سب سے اپنے بچوں کی خدمت گزاری کے قصے کہہ رہی تھی۔
اور میں جو آسمان ہوں اور صدیوں سے دھرتی کے کئی دکھ اپنے سینے میں اتارتا آیا ہوں ، اپنی یادوں کی البم کھول بیٹھا ہوں۔
جب اس فاطمہ کی کنیز نے اپنے بچوں کی چاکری شروع کی تھی۔ کیسی تتلی جیسی تھی یا پھول جیسی یا پھر نغمہ ء بہار۔ ساری رات جاگتی، گند صاف کر کے بچوں کو پھول سا مہکاتی۔ ایک سہ پہر چاچا خیرو نے سعد کی پیٹھ تھپتھپا کر تعریف کرتے ہوئے کہا”واہ سعد بیٹا! بیوی بچے کو کتنا اچھا رکھا ہے۔”
بچہ بیمار ہوتا توکملی ہوئی پھرتی، دعائیں، دوائیں، صدقے سب کرتی اور مجھے یاد ہے کبھی کسی نے اس باندی کا شکریہ ادا نہیں کیا تھا۔بچے جوان ہوئے، بہترین تربیت کی روشن مثال بن کر چمکے، اور ماں کو چھوڑ دور دیس سدھارے۔ سعد نے بھی انگلی چھڑائی اور راہی ء عدم ہوا۔
کنیز نے اپنی جھولی سمیٹی اور حجرے میں چھپ گئی۔ سعد نے یہ گھر اس کے لیے بنایا تھا۔ اس کی ایک ایک اینٹ اس نے کتنے ارمانوں ں سے لگائی تھی۔ اس گھر میں ساری عمر سر اٹھا کر رہی۔ آج چور بنی بیٹھی تھی۔ خوف زدہ کبوتری کی مانند۔ بچے حساب لیتے تو یہ کدھر جائے گی!!!!
آج بچے ماں کے بیمارہونے کی اطلاع پر آئے ہیں۔ کوئی دو دن سے ماں کی خدمت بھی کر رہے ہیں اور یہ اللہ کی کنیز بے ہوشی اور ہوشمندی میں ان کی تعریفوں کے پل باندھ رہی ہے۔ ملنے والے بھی اولاد کی فرمانبرداری اور خدمت کے ترانے گا رہے ہیں۔
اور میں، گہرا نیلا، وسیع آسمان، کنیز فاطمہ کی کوکھ کو کشکول بنتا دیکھ رہا ہوں۔ مجھے آج رات کا دکھ لرزائے دے رہا ہے۔ میرے رب کی کرسی غضب سے کانپ رہی ہے اور لوگ کنیز فاطمہ کی اولاد کو رشک سے دیکھ رہے ہیں۔
اے قاری ! تم خوش نصیب ہو جو رو سکتے ہو اور میری صرف ایک کہانی پڑھ رہے ہو۔ میں نے جتنی ماوں کو اپنے بچوں کے واری جاتے اور جتنی اولادوں کو کوکھ کے کشکول میں پتھر کے سکے گراتے دیکھا ہے اگر تم ایک بھی دیکھ لو تو کبھی مسکراو نہ۔ کبھی سو چا ہے کہ روز قیامت مجھے کیوں اللہ اپنی کلائی پر لپیٹے گا؟ میں گواہ ہوں، ہر ظلم کا ، ہر کرم کا۔
نمیرہ محسن
جولائی 2023

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں