A comparative study of Iqbal's Shaheen and Khushal Khattak's falcon 494

اقبال کے شاہین اور خوشحال خٹک کے باز کا تقابلی جائزہ

تحریر :ڈاکٹر زین اللہ خٹک

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ بیک وقت ایک شاعر ، صوفی ، مصنف ، قانون دان ، سیاست دان اور فلاسفر تھے۔ آپ نے دو زبانوں اردو اور فارسی میں شاعری کی۔ آپ کی شاعری کابنیادی مضمون تصوف اور احیائے امت (قوم کی احیاء) تھا۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے نئی نسل کی روح کو جگانے کے لیے شاہین کا تصور پیش کیا۔ شاہین علامہ اقبال کا پسندیدہ پرندہ تھا۔آپ شاہین کی صفات جیسے کہ خود داری اور غیرت سے متاثر تھے۔ شاہین کبھی گھر نہیں بناتا ہے۔ ہمیشہ محوِ پرواز رہتا ہے۔ اقبال کے نزدیک یہی صفات مسلمانوں کی ہے۔ لہذا آپ نے اپنی شاعری میں شاہین کو ترجیح دی ہے۔ آپ شاعر مشرق کے لقب سے مشہور ہے۔ دوسری طرف خوشحال خان خٹک 1613 میں اکوڑہ خٹک کے مقام پر پیدا ہوئے۔
آپ بیک وقت ایک شاعر، صوفی، مصنف، سیاست دان صاحب قلم اور فلاسفر تھے۔ آپ نے دو زبانوں پشتو اور فارسی میں شاعری کی۔ آپ کی شاعری کا بنیادی متن پشتون قوم کی احیاء اور سامراج کے خلاف آواز نمایاں ہے۔ آپ نے اپنی شاعری میں باز کو اظہار کا ذریعہ بنایا۔باز یا شاہین کو پرندوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ آپ کے نزدیک یہی صفات ہر انسان میں ہونی چاہیے۔ آپ شاعر شمال کے لقب سے مشہور ہے۔
علامہ اور خوشحال میں بہت زیادہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ جن میں آزاد پسندی، غلامی سے نفرت، نوجوان نسل پر کامل یقین، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ایک طرف اگر علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمان قوم میں فکری انقلاب پیدا کیا۔اور ہندوستان کو انگریزوں سے آزادی دلانے کے لیے قوم میں تڑپ پیدا کی۔ تو دوسری طرف خوشحال خٹک نے اپنی شاعری کے ذریعے سے پشتون قوم کو مغلوں کے خلاف نئی حرارت بخشی۔
اقبال اپنے افکار کی بدولت پاکستان کے قومی شاعر قرار پائے ، تو خوشحال خٹک افغانستان کے قومی شاعر اور پشتو زبان کے عظیم شاعر ٹھہرے۔
علامہ اقبال نے یورپ میں قیام کے دوران خوشحال خٹک کی شاعری کا انگریزی ترجمہ پڑھا۔ لہذا آپ خوشحال بابا کے نظریات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اگر پشتو پڑھ سکتے تو خوشحال خٹک کی شاعری کا ترجمہ اردو اور انگریزی میں کرتے۔
علامہ اقبال اور خوشحال خان خٹک میں بہت زیادہ ذہنی ہم آہنگی اور مماثلت پائی جاتی ہے۔ کچھ کم فہم لوگ بغض علامہ اقبال میں علامہ اقبال پر خوشحال خٹک کی شاعری چرانے کا الزام لگاتے ہیں۔ جو کہ سراسر غلط فہمی اور لاعلمی کا نتیجہ ہے۔ علامہ اقبال یورپ میں قیام کے دوران خوشحال خٹک کی شاعری سے آشنا ہوئے۔ جو انگریز میجر کی کتاب جس میں پشتون شعراء کی انگریزی میں ترجمہ کیاگیا تھا۔ کو پڑھ کر ہوئی حالانکہ اقبال نے شاہین شاعری میں اس سے پہلے استعمال کیا۔ اور علامہ اقبال نے اثر ضرور لیا۔ لیکن یہ ذہنی مماثلت سارے فلاسفروں میں پائی جاتی ہے۔ جس طرح چینی مصنوعات میں مختلف اجزاء کا استعمال ہوتا ہے۔ جو مختلف ممالک سے برآمد کی جاتی ہے۔ اب اگر کوئی دعویٰ کریں کہ یہ چینی نہیں بلکہ اس میں فلاں فلاں ملک کا میٹریل استعمال ہوا ہے ۔ تو یہ غلط ہوگا۔اس طرح خوشحال خٹک اور علامہ اقبال میں بھی ذہنی طور پر ہم آہنگی تھی۔دونوں نے اپنی شاعری میں شاہین کا تصور جبکہ خوشحال خٹک نے باز کا تصور دیا۔ شاہین کو پشتو زبان میں باز کہا جاتا ہے۔ شاہین یا باز کو پرندوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ شاہین جب بوڑھا ہوجاتا ہے تو موت سے بچنے اور دوبارہ جوان ہونے کیلئےاسے سخت محنت سے گزرتا پڑتا ہے۔شاہین کی عمر 70سال کے قریب ہوتی ہے۔اس عمر تک پہنچنے کے لیے اسے سخت مشکلات سے گزرنا ہوتا ہے۔جب اس کی عمر چالیس سال ہوتی ہے تو اس کے پنچے کند ہو جاتے ہیں جس سے وہ شکار نہیں کر پاتا، اسی طرح اس کی مضبوط چونچ بھی عمر کے بڑھنے سے شدید ٹیڑھی ہو جاتی ہے،اس کے پر جس سے وہ پرواز کرتا ہے بہت بھاری ہو جاتے ہیں اور سینے کے ساتھ چپک جاتے ہیں جس سے اڑان بھرنے میں اسے سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان سب مشکلات کے ہوتے ہوئے اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں یا تو وہ موت کو تسلیم کر لے یا پھر 150 دن کی سخت ترین مشقت کے لیے تیار ہو جائے۔چنانچہ وہ پہاڑوں میں جاتا ہے ۔اور سب سے پہلے اپنی چونچ کو پتھروں پہ مارتا ہے یہاں تک کہ وہ ٹوٹ جاتی ہے۔کچھ دن بعد جب نئی چونچ نکلتی ہے تو وہ اس سے اپنے سارے ناخن جڑ سے کاٹ پھینکتا ہے۔پھر جب اس کے نئے ناخن نکل آتے ہیں تو وہ چونچ اور ناخن سے اپنا ایک ایک بال اکھاڑ دیتا ہے۔اس سارے عمل میں اسے پانچ ماہ کی طویل تکلیف اور مشقت سے گزرنا ہوتا ہے۔پانچ ماہ بعد جب وہ اڑان بھرتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس نے نیا جنم لیا ہو اس طرح وہ تیس سال مزید زندہ رہ پاتا ہے۔شاہین کے علاوہ کوئی اور پرندہ ایسا نہیں ،جو نوجوانوں کے لیے قابل تقلید نمونہ بن سکے۔ شاہین بلند پرواز ہے عام پرندوں کی طرح نیچی پرواز اس کے شایان شان نہیں نوجوانوں میں بلند پروازی کی صفت پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے مقاصد بلند ہوں، ان کی سوچ میں پستی نہ ہو
خوشحال خان خٹک اپنی شاعری کے ذریعے سے جہد مسلسل کی تعلیم دیتا ہے۔ جس طرح باز یا شاہین مسلسل جدو جہد کرتا ہے۔ اسی طرح انسانوں کو مسلسل جدو جہد کرنی چاہیے۔آپ باز کی زندگی کو درویشوں کی زندگی سے تشبیہ دیتے ہے۔خوشحال خٹک فرماتے ہیں کہ میری نظر ہمیشہ باز کی طرح بڑے شکار پر ہوتی ہے۔ کیونکہ باز کیڑے مکوڑے اور گندی چیزوں سے پرہیز کرتا ہے۔
اقبال فرماتے ہیں۔
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کی گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
خوشحال خان خٹک کہتے ہیں۔ کہ وہی باز بنو جن کا ٹھکانہ پہاڑوں پر ہو۔ نہ کہ وہ جو پیٹ کے غم میں ہراساں ہو۔
المختصر ہم کہہ سکتے ہیں کہ علامہ اقبال اور خوشحال خان خٹک میں کافی ذہنی ہم آہنگی اور مماثلت پائی جاتی ہے۔ نوجوان نسل کو علامہ اقبال کا شاہین اور خوشحال خان خٹک کا باز بن کر تمام برائیوں کا خاتمہ کرکے دنیا کو امن وسکون کا گہوارہ بنانا چاہیے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں