نمیرہ محسن 191

گلدستے میں چن کر تمہارے قدموں میں رکھ دیے ہیں

نمیرہ محسن :پی این پی نیوز ایچ ڈی

آقا میرے!
آج تم چھٹی مناو
میں نے سب راہیں صاف کردی ہیں
تمہارا باغ بھی
شام کو چائے کے واسطے
مہکا دیا ہے
اور کچھ گل
اپنے چھلنی ہاتھوں سے
گلدستے میں چن کر
تمہارے قدموں میں رکھ دیے ہیں
دو پھول سے ہاتھ
چائے کی پیالیوں میں بچی
چائے کو
صابن سے گھستے
پرانی میز کو
جس پر سالن کے دھبے
اور سگریٹ کی جلن
چمٹی پڑی ہے
اپنی صافی سے ملتے
وہ داغ مٹائیں گے
جو کبھی مٹ نہ پائیں گے
آج چھٹی ہے
بڑے لوگ آئیں گے
یوم محنت منائیں گے
وہاں
سامنے
ایک چھوٹا
اپنے معصوم بدن کو لیے
جس پر
گردن سے اوپر
ایک پختہ مرد
مسکراتا ہے
اپنے خراشوں بھرے گالوں کو کریدتے
کسی کچے پھل کی طرح
جسے ڈالی سے توڑ کر
وقت سے پہلے
دکانوں میں سجایا ہو
اور
وہ بک نہ پائے
اور
وقت سے پہلے
گل سڑ کر
کچرے میں جا گرے
لٹو کی مانند
ہر میز پر
ہر ورکشاپ میں
پلگ اور پانے پکڑاتے
اور ہر کارخانے میں
جسیم قالینوں کے دھاگے پکڑے
کسی نجی محفل میں
معزز دانشوروں کا دل بہلاتے
موسیقی کی لے پر تھرکتی
نازک سی کلیاں
کسی عفریت کے قبضے میں
کچھ کچی کلیاں
گاڑیوں کے شیشے چمکاتے
گھومتا ہو گا
اسی دنیا سے
اک الگ مدار بنائے
جو اس کو
پوری کائنات سے
کاٹ کر رکھ دے
ننھا جگنو
تارہ تارہ ٹوٹے گا
پتی پتی بکھرےگا
اور
ہم تم
وہ دن منائیں گے
انساں انساں کو کھائیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں