زرخیز زمین اور بنجر نظام
کالم نگار: پروفیسر محمد رزاق امن:پی این پی نیوز ایچ ڈی
زرخیز زمین اور بنجر نظام
کالم نگار: پروفیسر محمد رزاق امن:پی این پی نیوز ایچ ڈی
ہر طرف یہی سننے کو ملتا ہے کہ زراعت ہمارے ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب یہ ریڑھ کی ہڈی کینسر زدہ ہو چکی ہے۔ اس میں ایسی بیماریاں سرایت کر چکی ہیں کہ روز بروز اس کا زوال بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ کسان جو ملک کی خوشحالی میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے تھے، آج اپنے گھر کا گزارا بھی بمشکل کر رہے ہیں۔ بڑے زمیندار، جن کے پاس وسیع زمینیں ہیں، وہ اب خود کاشت کاری کرنے کے بجائے زمینیں ٹھیکے پر دے کر بڑے آرام سے گزارا کر رہے ہیں۔ لیکن جن کسانوں کے پاس چند ایکڑ زمین ہے، جنہوں نے اسی
سے بچوں کا پیٹ پالنا ہے، وہ اس قابل بھی نہیں کہ زمین ٹھیکے پر دے سکیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ پس کر رہ گئے ہیں۔
یہاں تک کہ جو بڑے زمیندار بھی خود کھیتی باڑی کر رہے ہیں، وہ بھی خسارے کا رونا روتے ہیں۔ جب نقصان ہی ہونا ہے تو وہ بھی یہی بہتر سمجھتے ہیں کہ زمین کسی کو دے کر بیٹھے رہیں۔
وجہ صاف ہے، زراعت میں اخراجات ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔ پانی مہنگا، بجلی مہنگی، ڈیزل مہنگا، کھادیں اور ادویات آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، یہاں تک کہ مزدوری بھی مہنگی ہو چکی ہے۔ اور جب فصل تیار ہوتی ہے تو منڈی میں اس کا ریٹ کسان کے اخراجات کے برابر بھی نہیں ملتا۔ اکنامکس کے ماہرین کی تھیوریاں بھی عجیب ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اپنے ملک میں وہ فصلیں نہ اگاؤ جو مہنگی پڑتی ہوں، اگر وہ باہر سے سستی دستیاب ہو جائیں تو وہی درآمد کر لو۔ چلیں گندم ہی کی مثال لے لیں، کہا جاتا ہے کہ باہر سے گندم سستی ملتی ہے، لیکن کبھی کسی نے اس سستی گندم کی کوالٹی دیکھی؟ وہ گندم جو باہر سے درآمد ہوتی ہے، دیمک زدہ ہوتی ہے، غذائیت سے خالی اور بعض اوقات مضر صحت بھی۔ ہماری اپنی گندم نہ صرف زیادہ غذائیت والی ہے بلکہ ذائقے میں بھی بہتر ہے۔ اگر باہر سے چیز سستی مل رہی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسان کو اس کے اگانے سے روکا جائے، اور الٹا اسے انعامات اور سبسڈیوں کے جھانسے میں لا کر دھوکہ دیا جائے۔ جب کسان وہی فصل اگاتا ہے تو خرچے اتنے ہو جاتے ہیں کہ آمدن کچھ نہیں بچتی، نتیجہ خسارہ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ کسانوں کو ان فصلوں کی طرف راغب کیا جائے جن سے وہ فائدے میں رہیں۔ اور سب سے بڑھ کر حکومت کو چاہیے کہ کھاد، سپرے، ادویات، بیج، ڈیزل اور دیگر زرعی اشیاء کے نرخوں پر کنٹرول کرے۔
بجلی کی بات کریں تو ہمارے ہمسایہ ممالک میں کسانوں کو بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے، جب کہ ہمارے ہاں ایک ایک پانی لگانے پر کسان سے دس ہزار روپے لیے جاتے ہیں۔ اتنے اخراجات کے بعد کسان کے پاس بچتا ہی کیا ہے؟ اگر کسان سولر پر منتقل ہو بھی رہا ہے تو اس میں بھی مسائل درپیش ہیں۔ سولر سسٹم پر خرچ بہت زیادہ آتا ہے اور اس سے پانی تبھی دستیاب ہوتا ہے جب سورج نکلتا ہے۔ دھان جیسی فصلوں کو بروقت پانی چاہیے، اور اگر دھوپ نہ ہو تو فصل کا نقصان یقینی ہے۔ متبادل کے طور پر بجلی کا کنکشن ہو تو وہ تب فائدہ مند ہو گا جب بجلی سستی ہو۔ سردیوں میں سورج کم نکلتا ہے، مطلب یہ کہ فصلوں کو پانی وقت پر نہیں ملے گا اور پیداوار متاثر ہو گی۔ لہٰذا بجلی کو سستا کرنا ناگزیر ہے۔
سب سے بنیادی مسئلہ محکمہ زراعت کی غیر فعالیت ہے۔ یہ محکمہ اس وقت سفید ہاتھی بن چکا ہے جو صرف کاغذوں میں زندہ ہے۔ اس کے افسران بڑی بڑی تنخواہیں لیتے ہیں، پینشن کے بوجھ کے ساتھ ملک کی معیشت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں، جبکہ عملی کارکردگی صفر ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس محکمے کو فعال بنائے۔ ان کی تنخواہیں اس بات سے مشروط کی جائیں کہ وہ کسانوں سے باقاعدہ رابطے میں ہوں، کسانوں کا ڈیٹا رکھیں، ان کے اخراجات کا ریکارڈ ہو، اور ان کی فصلوں کو مارکیٹ دلوانے میں مدد کریں۔ کسان کو مناسب قیمت پر اپنی فصل فروخت کرنے کے لیے ایک باقاعدہ پلیٹ فارم دیا جائے تاکہ وہ بروقت اپنی کمائی حاصل کر سکے۔ فی الحال یہ محکمہ صرف کاغذی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ کہیں ایک پلاٹ لگا دیا اور اسے کامیابی کا نمونہ بنا کر پورے ضلع کی رپورٹ تیار کر لی، جبکہ اصل کسانوں کی کوئی خبر نہیں لی جاتی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ محکمہ زراعت کی ذمہ داریاں واضح کی جائیں، اگر کوئی کسان سارے میں جاتا ہے تو اس کی تلافی کے لیے اقدامات ہوں۔ اس وقت پاکستان میں اگر کوئی طبقہ سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہے تو وہ کسان ہے۔ حکومت وقت اور ماضی کے تمام حکمرانوں سے اپیل ہے کہ کسان کے لیے پالیسیز بنائی جائیں، ایسی پالیسیاں جو اسے فائدہ دیں، نہ کہ صرف وعدے۔
کسان کو اس بات کی آزادی ہونی چاہیے کہ وہ اپنی فصل خود فروخت کرے، مگر ایک نظام کے تحت، تاکہ دلال اور بروکر اس کی محنت نہ لوٹ سکیں۔ پاکستان جیسے ملک میں فری مارکیٹ صرف خواب ہے۔ یہاں کے بروکر کسان کی فصل ہی نہیں، اس کا خون بھی نچوڑنا چاہتے ہیں۔ اس لیے یہاں آزاد منڈی کا تصور کسان کے حق میں نہیں بلکہ اس کے خلاف ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ہر فصل کی خریداری کے لیے ایک باقاعدہ حکومتی سسٹم ہو، محکمہ زراعت اس کا نگران ہو، جو اگر کسان کو صحیح ریٹ نہیں دلواتا تو وہ قابل مواخذہ ہو۔
گنا دیکھ لیں، کسانوں نے شوگر ملز کو فصل دی، لیکن مہینوں گزر گئے، کسی کو ابھی تک پیسے نہیں ملے۔ اگر محکمہ زراعت فعال ہوتا تو یہ ظلم نہ ہوتا۔ کسان کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ فصل جب اور جہاں چاہے فروخت کرے،
مگر ایسی جگہ اور ایسے نرخوں پر جہاں اسے خسارہ نہ ہو۔ نا تو اس کی محنت کا استحصال ہو، نا ہی مصنوعی مہنگائی پیدا ہو۔ کسان ملک کی معیشت کا ستون ہے۔ اگر وہی گرجائے تو پوری عمارت لرزنے لگتی ہے۔
اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ محکمہ زراعت کو ایکٹیو کیا جائے، کسان کو بااختیار بنایا جائے، اس کی فصل کا ریٹ یقینی بنایا جائے، اور بروقت ادائیگی کو لازم قرار دیا جائے۔ ورنہ صرف زراعت ہماری ریڑھ کی ہڈی ہے کہنے سے