" اُردو مرکز بحرین" کا قیام اور " یومِ استقلال مشاعرہ " 339

” اُردو مرکز بحرین” کا قیام اور ” یومِ استقلال مشاعرہ “

بحرین رپورٹ۔( احمد امیر پاشانمائندہ خصوصی ،تازہ اخبار،پاک نیوز پوائنٹ )

اُردو مرکز بحرین کے قیام نے ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی کے اس نقطہ نظر کی مزید توثیق کر دی کہ پاکستان کا تہذیبی میلان وسطہ ہند کی نسبت خلیجی ممالک کیساتھ زیادہ فطری اور قریبی ہے۔ اس تاریخی تناظر میں مملکتَِ بحرین کی فضا ہمیشہ فروغِ اردو کے لئے سازگارو معاون رہی ہے۔اس مؤقف کی مزید تائید، کراچی سے تعلق رکھنے والے، روزنامہ جسارت کے معروف کالم نویس، فیچر نگار اور مؤلف خرم عباسی اور ان کے رفقائے علم و ادب کی مساعی سے ” اُردو مرکز بحرین” کے قیام سے ہوتی ہے۔اپنی منفرد علمی و ادبی شناخت کی وجہ سے خرم عباسی ، اس سے قبل بحرین کی عالمی ادبی تنظیم ، مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو میں خدمات سر انجام دیتے ہوئے شعراء و ادبا ء سے اپنی علمی اور تنظیمی صلاحیتوں کی داد پا چکے ہیں۔
” اُردو مرکز بحرین” کے قیام کا بنیادی مقصد فروغِ اردو کوایک زبان کے علاوہ ایک مؤثر علمی کلچر کے طور پر نوجوان طلبہ میں اس طرح اجاگر کرنا ہے کہ وہ اس زبان اور اس سے وابستہ شاندار ماضی اور اس کے تابناک مستقبل کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ اس حوالے سے ، ” اُردو مرکز بحرین” کے بانی خرم عباسی کی گذشہ تحریریں اور فیچرز ایک علمی اثاثے کا درجہ رکھتے ہیں۔
آن لائن مشاعرے میں ” اُردو مرکز بحرین” کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے دورانِ نظامت ،خرم عباسی کی آواز میں مسرت انگیز جذباتیت کا تاثر در اصل اس نئی تنظیم کے قیام اور اس کے مقاصد کیساتھ اسن کی قلبی وابستگی کا عکاس ہے۔مجلسِ فخرِ بحرین، الثقافہ، اور انجمن فروغ ِ ادب جیسی فعال ادبی تنظیموں کی موجودگی میں ” اُردو مرکز بحرین” کا قیام بلا شبہ اردو کی ترقی کے نئے امکانات کے عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔اس آن لائن مشاعرے کی ایک خاص بات پاکستان کے چاروں صوبوں اور بحرین سے شعرائے کرام کی شرکت تھی۔
” اُردو مرکز بحرین” کے زیرِ اہتمام اس پہلے تاسیسی یومِ استقلال مشاعرے کی صدارت کراچی سے اردو غزل کو روحانی تجدد سے آراستہ کرنیوالے با کمال شاعر اجمل سراج نے کی جبکہ مہمانِ خصوصی خوبصورت لہجے کے شاعر خالد معین تھے۔ اس مشاعرے میں اجمل سراج صدرِ مشاعرہ(کراچی) ، خالد معین ،مہمانِ خسوصی،(کراچی) کومل بحروں اور غزل کے لطیف لہجے کے شاعر احمد عادل، مہمانِ اعزاز( مملکتِ بحرین) ، مہمانِ اعزاز، انجینئیر ریحان احمد (چیئرمین پاکستان کلب بحرین ) ، مہمانِ اعزاز محترم عادل وسیم (منیجنگ ڈائریکٹر شاہکو گروپ)رخسار ناظم آبادی، احمد امیر پاشا( راقم الحروف)،سیمان نوید ،، طاہر عظیم، عمران شمشاد، عبدالرحمٰن مومن،ریاض شاہد، سعید سعدی اور اسد اقبال نے شرکت کی۔مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو کے بانی و سرپرست، شکیل احمد صبر حدی کی یومِ استقلال مشاعرے میں شرکت بلا شبہ اردو مرکز بحرین کے تاسیسی لمحات میں سرپرستی اور حوصلہ افزائی کا استعارہ تھی۔ انہوں نے اردو مرکز کے قیام کو بحرین کے ادبی حلقوں میں ایک خوبصورت اضافہ قرار دیا۔
ناظمِ مشاعرہ خرم عباسی نے بجا طور پر کہا کہ : پاکستان کی پوری تحریک حسینیت کے نقشِ قدم پر چل کر ہی کامیاب ہوئی، قیام پاکستان کے پسِ پردہ سیدنا حسین علیہ اسلام کا جذبہ سرفروشی ہی کارفرما تھا، اس لئے محرم الحرام کی نسبت سے بھی اس مشاعرے میں کلام پیش کیا گیا۔ مشاعرے میں شریک شعرائے کے کلام سے منتخب اشعار قارئین کی نذر ہیں۔
اجمل سراج۔ صدرِ مشاعرہ
جو سامنے ہے ہمارے یہ زندگی تو نہیں
غموں کی بھیڑ ہے ظلم و ستم کا میلہ ہے
ہوئی ہےجس کی محبت کے نام سے پہچان
دہ درد دل نے سہا ہے وہ دکھ بھی جھیلا ہے
بھر رہے تھے سب اپنا پیمانا
کون سنتا صدائے میخانہ
ایک ہی بات تھی جسے سن کر
کوئی مانا کوئی نہیں مانا

عارف معین۔ مہمانِ خصوصی
ہزار اہلِ ستم پہرے بٹھائیں
لہو آخر لہو ہے بولتا ہے
رہے گا منتظر ہر دور تیرا
یہ دنیا فطرتاً اک کربلا ہے

احمد عادل۔ مہمانِ اعزاز
ہم نا جانے کیوں بھٹک جاتے ہیں سیدھی راہ سے
بھول جاتے ہیں اسی کو جس نے ہے تھاماہوا
کیا نہیں ہم جانتے ہر گھات میں صیاد ہے
جو بچھا کر جال ہے پھر تاک میں بیٹھا ہوا

رخسار ناظم آبادی
یہ ایک سبز پرچم یہاں جو لگا ہے
شہیدوں کے سینے پہ تمغہ سجا ہے
بفضلِ خدا ہمتیں یوں جواں ہیں
قیامت تلک نام زندہ رہے گا

احمدامیر پاشا
ہنس کر مشکل وقت گزارا جائے گا
ہر آنگن میں چاند اتارا جائے گا
جانی دشمن کو ہلت دی جائے گی
قوم کے دشمن کو للکارا جائے گا

سیمان نوید
ہم نے یہ خواب دوبارہ دیکھا
چاند کیساتھ کنارہ دیکھا
ہن نے کارِ محبت میں کبھی
نفع دیکھا نہ خسارہ دیکھا

طاہر عظیم
پلٹنے کا خیال آیا تو سوچا
کہاں دیکھا گیا رستا ہمارا
تو کیا تعبیر سے محروم ہوں گے
ہمارا خواب ہے چہرہ ہمارا

عمران شمشاد
وہ بولوں جو من میں ہو
اتنی تو آزادی دو
کلقِ خدا ہے تشنہ لب
جتنا رو سکتا ہے رو

عبد الرحمٰن مومن
آزاد نظم وعدہ سے اقتباس
تجھ کو معلوم تو ہے تجھ سے محبت ہے ہمیں
تیرے کہنے پہ تو ہم جان لٹا سکتے ہیں
یاد کر جب تجھے پایا بھی نہیں تھا ہم نے
تجھ کو پانے کے لئے کتنے جتن ہم نے کئے

ریاض شاہد
اے مرے پاک وطن تجھ سے ہے اعجاز مرا
میں ایک ذرہِ بے جسن جد کی جسن ہے تو
میں دور رہ کے بھی تجھ کو بھلا نہ پایا کبھی
کہ میرا ہونا ہے تجھ سے مرا ایقان ہے تو
سعید سعدی
اس کا برہم مزاج کیا کہنے
ہم شکگفتہ مزاج کیا کرتے
کل ملاقات ان سے طے تھی مگر
یہ بتاؤ کہ آج کیا کرتے

اسد اقبال
اس طرف یزید تھا اس طرف حسین ہیں
ہوں ازل سے اس طرف جس طرف حسین ہیں
جس طرف حسین ہیں، حق بھی ہے اسی طرف
خود ہی سوچ لیجئے، کس طرف حسین ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں