"چوہدری" اور "چوہدری میکر" تحریر:- ظہیر اے چوہدری 440

“چوہدری” اور “چوہدری میکر” تحریر:- ظہیر اے چوہدری

کالم :- فرنٹ پیج

براعظم ایشیاء کے تقریباً 51 ممالک میں سے جنوبی ایشیا کے ممالک کی تعداد 8 ہے۔ جغرافیائی و سیاسی لحاظ سے 7 ممالک یعنی بنگلہ دیش، بھارت، بھوٹان، مالدیپ پاکستان، سری لنکا اور نیپال کو جنوبی ایشیا کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ جو آپس میں علاقائی تعاون کی ایک تنظیم “سارک” کے اراکین بھی ہیں۔ تاہم افغانستان کو بھی اس تنظیم کا آٹھواں رکن بنایا دیا گیا ہے۔ ہمسایہ ملک چین ایشیا کا اہم ترین ملک ہے لیکن محل وقوع کے اعتبار سے جنوبی ایشیاء کا نہیں بلکہ مشرقی ایشیاء سے ہے اور چین نے اپنی غیر معمولی معاشی قوت کی بدولت خطے میں اپنے اثر و رسوخ میں بے پناہ اضافہ کیا ہے جبکہ اس خطے کا بڑا ملک بھارت بھی اپنی غیر معمولی آبادی، بڑی مارکیٹ اور معاشی ترقی کی بدولت جنوبی ایشیاء میں اپنا ایک علحیدہ مقام رکھتا ہے۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش چونکہ ایک خطے سے تین ممالک معرض وجود میں آئے ہیں، اس لیے ان تینوں ممالک کی زبان، ثقافت، تہذیب و تمدن کے تانے بانے بہرحال ایک دوسرے سے کافی حد تک ملتے جلتے ہیں۔ لیکن یہ تینوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ بالکل بھی مخلص نہیں رہے۔ بیانات کی حد تک ایک دوسرے کو تو یقین دلاتے رہے ہیں لیکن عمل اسکے بالکل برعکس رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں قصوروار کسی نہ کسی ملک کو ضرور ٹھہرایا جا سکتا ہے اور وہ ملک ہے بھارت۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ 1947 میں جب انگریز اس خطے کو دولخت کر کے اپنے ملک انگلستان واپس گئے تو ہندو کٹرتا نے پہلے دن سے ہی کمزور خطہ پاکستان کو مزید کمزور کرنے کی لابنگ شروع کر دی، بھارت کے پاس رقبہ بھی زیادہ، ریزرو فنڈ بھی زیادہ، ہندو و مسلم سیاسی قیادت بھی مضبوط تھی۔ لہٰذا اسی طاقت کے پیش نظر بھارت نے مشرقی و مغربی پاکستان کے سیاستدان و اسٹیبلشمنٹ میں زبردست پھوٹ ڈالی اور پاکستان کے بھی دو حصوں میں تقسیم کروانے میں بھارت کامیاب رہا۔ یعنی بھارت کی دور اندیشی کا آپ یہاں سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ پاکستان کو اپنا اچھا ہمسایہ بنانے بجائے اس میں بدامنی پھیلانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا۔ آخرکار ردعمل میں پھر پاکستان نے بھی دوسرے ممالک کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ حالانکہ کہ بھارت بڑا ملک ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے پن کا مظاہرہ کرتا تو آج صورتحال بڑی خوبصورت ہوتی۔ میرٹ سے دیکھا جائے تو انگریزوں نے مسلمانوں سے ہند کی حکومت چھینی تھی، چاہیے تو یہ تھا کہ وہ حکومت بھی واپس مسلمانوں کو دیکر جاتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ہندو کٹرتا نے انگریزوں کے بدلے بھی مسلمانوں سے لیے اور پہلے دن سے ہی پاکستان کو ذہنی طور پر تسلیم ہی نہیں کیا، لہذا ایسی صورتحال میں پاکستان بھارت کو اپنے بڑے بھائی کا درجہ کیسے دے سکتا تھا؟ بھارت نے بڑے پن کی بجائے ہر محاذ پر مسلمانوں کو ٹف ٹائم دیا، وہ سقوطِ ڈھاکہ ہو یا کشمیر، کسی بھی جگہ آسان حدف نہیں دیا۔ جبکہ بنگلہ دیش، کشمیر اور پاکستان سے یہ توقع رکھی کہ مجھے خطے کا “چوہدری” مانا جائے۔ مذکورہ بالا سارے سنیریو میں پاکستان کو پھر اپنے تمام اداروں کو کسی بھی قیمت پر اپنے آپکو بہتر کرنا پڑا اور دفاعی پالیسی کے تحت پاکستان کو ایٹمی طاقت بھی بننا پڑا، دوسرے ممالک کے ساتھ معاشی و دفاعی تعلقات کے تجربات بھی کرنا پڑے، الحمداللہ آج پاکستان کافی کمیوں کے باوجود بھی مضبوط دفاعی اور معاشی بنیادوں پر ساری دنیا کے سامنے آ چکا ہے۔ تجربات میں جہاں امریکہ اور روس سے کچھ زخم بھی ملے لیکن چین کے ساتھ تعلقات کا تجربہ بہت اچھا رہا جو کہ اب لازم و ملزوم بن چکا ہے۔ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تجارت و سرمایہ کاری کی بدولت چین کے جنوبی ایشیاء کے دوسرے ممالک سے معاشی تعلقات تیزی سے مضبوط ہورہے ہیں لیکن بھارت جنوبی ایشیاء میں چین کو سب سے بڑا خطرہ تصور کر رہا ہے، کیونکہ چین اپنے سب سے بڑے انفرااسٹرکچر کے ذریعے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبے کے تحت خطے کے ممالک کے انفرااسٹرکچر کو مضبوط بنا کر اُنہیں آپس میں ملانا چاہ رہا ہے جسکی وجہ سے چین کا خطے میں اثر و رسوخ مزید بڑھنے کا امکان مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم چین کے بہتر تعلقات صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کا جھکاؤ بھی اب چین کی طرف ہے جسے چین گارمنٹس انڈسٹری کیلئے بے شمار اشیاء انتہائی کم نرخ میں فراہم کررہا ہے جبکہ چین نے بنگلہ دیش میں انفرااسٹرکچر کے کئی ترقیاتی منصوبوں میں بھی سرمایہ کاری کی ہے جو بھارت کیلئے انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ اب یہی ساری مشق اگر بھارت نے اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ کی ہوتی تو یہ ہمسائے آج کیونکر بھارت کو بائی پاس کرتے؟
اسی طرح چین نے سری لنکا کے بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کرنے اور عالمی منڈی میں سری لنکا کی تجارت بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین، سری لنکا کو اپنے سمندری تجارتی راستے کیلئے نہایت اہمیت دیتا ہے، اس لئے چین، سری لنکا میں نئی بندرگاہ اور ہوائی اڈے بنانے میں دلچسپی رکھتا ہے جس کی وجہ سے سری لنکا نے ماضی قریب میں چین کی آبدوزوں کو اپنی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہونے کی اجازت بھی دی تھی۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا کی طرح خطے کے دوسرے ممالک بھی چین کو بھارت کے مقابلے میں انتہائی مضبوط پارٹنر تصور کرتے ہیں، کیونکہ بھارت نے کبھی کسی ملک کے ساتھ بڑے پن کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن یہ امر بھارت کیلئے تشویش کا باعث ہے کیونکہ خطے میں چین کا اثر و رسوخ بڑھنے سے بھارت کی علاقائی بالادستی کا خواب چکنا چور ہوتا نظر آ رہا ہے۔
موجودہ حالات میں بھی بھارت نے افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ امور خارجہ پالیسی ہو، زیرک قسم کی سفارتی کاری ہو، میڈیا کا ادھم مچانا ہو، اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری افغانستان میں پھینکی ہو تمام کا مقصد صرف و صرف پاکستان کو عالمی سطح پر کمزور کرنا ہے۔ اور پھر بھی توقع یہ رکھنی ہے کہ خطے کا “چوہدری” مجھے مانا جائے۔ اب انکو پاکستان کی طاقت کا اندازہ ہو رہا ہے کہ پاکستان “چوہدری” بنے یا نہ بنے لیکن “چوہدری میکر” ہونے کی طاقت ضرور رکھتا ہے۔ پاکستان نے چین کو پہلے اقوام متحدہ میں “چوہدری” بنوایا اور اب جنوبی ایشیاء ہی میں نہیں بلکہ پورے ایشیاء میں “چوہدری” بنوانے جا رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آپ تھوڑے وقت کے لیے تو طاقت سے چودھراہٹ کر سکتے ہو لیکن ہمیشہ رہنے والی چودھراہٹ نفاذ امن اور بڑے پن میں ہی پنہا ہے جو کہ بھارت کے بس میں نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں