آج کے کالمزبین الاقوامی کالمزپاکستاندلچسپ و عجیبفیچر کالمزکالمز

خاک میں مل گئے نگینے لوگ

خاک میں مل گئے نگینے لوگ

انجینئر افتخار چودھری:پی این پی نیوز ایچ ڈی

کچھ لوگ وقت کی سطح پر نہیں، دلوں کے نہاں خانو

زندہ رہتے ہیں۔ وہ کلام سے نہیں، کام سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے پاس نہ تاج ہوتا ہے نہ تخت، مگر ان کا جلال ایسا کہ بادشاہوں کے محلات پر چھا جائے۔ وہ شعلہ نہیں ہوتے، مگر اندھیروں میں چراغ بن جاتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک نام ہمیشہ زندہ رہے گا — عبدالستار ایدھی۔
یہ جولائی کی ایک خاموش شام تھی۔ سورج ڈھل چکا تھا، فضا میں ایک عجیب سی سستی پھیلی ہوئی تھی۔ ملک کی شاہراہیں شور سے لبریز تھیں، کہیں سیاست کی بازیگری ہو رہی تھی، کہیں میڈیا کی مصنوعی روشنیوں میں کرسیوں کے کمرشل مقابلے۔ ایسے میں اک قبر کے سرہانے خامشی تھی۔ نہ کوئی سرکاری پرچم، نہ ماتمی موسیقی، نہ ہی قوم کے چمکتے نقوش میں کسی کا تذکرہ۔ عبدالستار ایدھی کی برسی گزر گئی… یونہی… جیسے کوئی سوال کیے بغیر راہ چلتا ہو۔
ایدھی — یہ فقط ایک نام نہیں، ایک مدرسۂ فکر، ایک تحریک، ایک درویش صفت مزاج کا ایسا سفیر جس نے عالمِ انسانیت کو جھنجھوڑا۔ 1928ء میں بھارت کے شہر گجرات میں پیدا ہوا ایک کمزور سا لڑکا، جس کی ماں اسے روز چند پیسے دیتی، کہ آدھے اپنے لیے اور آدھے کسی ضرورت مند کو دینا۔ ماں نے خدمت کا جو بیج اس کے دل میں بویا، وہی شجر حیات بن کر دنیا کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم کا سایہ بن گیا۔ ماں کی یادوں نے اسے بھیک مانگنے والوں کی عزت کرنا سکھائی، پاگلوں کی آنکھوں میں خدا تلاشنا سکھایا، اور گندگی میں پڑے لاشے کو بھی کفن دینا سکھایا۔ اس کی ماں اسے کہتی تھی کہ بیٹا، انسانیت کی خدمت ہی سب سے بڑی عبادت ہے۔ یہی وہ بنیادی سبق تھا جو ایک چھوٹے سے عبدالستار کے دل میں پیوست ہو گیا اور زندگی بھر اس کی رہنمائی کرتا رہا۔
جب پاکستان نوزائیدہ تھا، کراچی کی سڑکوں پر غریبی رقص کر رہی تھی۔ ان دنوں عبدالستار ایدھی نے فقط پانچ سو روپے کی بچت سے ایک چھوٹی سی ڈسپنسری قائم کی۔ دوا تھی نہ دوات، فقط خلوص تھا اور ایک مقصد۔ انسان کی تکلیف کو اپنے دل پر محسوس کرنا، یہی ان کا زخم تھا، یہی ان کی دوا۔ ان کا یقین تھا کہ خدمت کا آغاز چھوٹے پیمانے پر ہی ہوتا ہے، اور پھر خلوصِ نیت کے ساتھ وہی چھوٹی سی کاوش ایک تناور درخت بن جاتی ہے۔ پھر 1957ء میں انہوں نے ایک پرانی وین خریدی، جو ان کی پہلی ایمبولینس بنی۔ وہ خود ہی ڈرائیور تھے، خود ہی خاکروب، خود ہی نرس، خود ہی کفن دفن کرنے والے۔ راتوں کو وہ اپنی وین میں ہی سو جاتے، تاکہ کسی ہنگامی صورتحال میں فوراً مدد کو پہنچ سکیں۔ ان کی ایمبولینس کا سائرن کسی کی جان بچانے کا اعلان ہوتا تھا، نہ کہ کسی حکومتی شخصیت کی آمد کا۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ انسانیت کی خدمت کے لیے وقف تھا، وہ کسی بھی وقت، کسی بھی حالت میں مدد کے لیے تیار رہتے تھے۔ ان کے لیے آرام اور سکون ثانوی حیثیت رکھتے تھے، اولیت ہمیشہ انسانی دکھ کو کم کرنے کی تھی۔
ایدھی صاحب کے نزدیک خدمت کا کوئی وقت نہ تھا، کوئی تعطیل نہ تھی۔ گرمیوں کی دوپہریں، سردیوں کی راتیں، بارش کی جھڑی، یا سیاسی ہلچل—ہر موقع پر وہ سڑکوں پر ہوتے۔ کبھی بے ہوش لاش کو اٹھاتے، کبھی ماں کی جھولی میں بچہ رکھ دیتے۔ وہ صرف جسموں کی نہیں، ضمیر کی صفائی بھی کرتے۔ ان کا وجود اک ایسی درسگاہ تھا، جہاں رحم، ایثار، انکساری اور خود سپردگی کے اسباق از خود سیکھے جاتے تھے۔ وہ کسی کی شناخت نہیں پوچھتے تھے، ان کے لیے ہر ضرورت مند صرف ایک انسان تھا، جو مدد کا مستحق ہے۔ وہ انسانیت کو جوڑنے کی سب سے بڑی مثال تھے، جب کہ معاشرہ مذہب، فرقے اور زبان کے نام پر تقسیم ہوتا چلا جا رہا تھا۔ ان کا فلسفہ یہ تھا کہ انسانیت کی خدمت ہی سب سے بڑا مذہب ہے۔ انہوں نے اس بات کو عملی طور پر ثابت کیا کہ محبت اور خدمت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔
ایدھی صاحب کے مشن میں ان کی اہلیہ، بلقیس ایدھی، کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ بلقیس ایدھی نہ صرف ان کی شریک حیات تھیں بلکہ ان کے مشن کی سچی رفیق بھی تھیں۔ انہوں نے ایدھی صاحب کے شانہ بشانہ کام کیا۔ جب ایدھی صاحب لاوارث بچوں کو اپنے گھر لے آتے تو بلقیس ان کی پرورش کرتی تھیں۔ انہوں نے ہزاروں بچوں کو گود لیا اور انہیں ماں کی ممتا دی۔ بلقیس ایدھی نے بے سہارا خواتین اور بچیوں کے لیے بھی پناہ گاہیں قائم کیں، اور انہیں عزت کی زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا۔ ان کی انتھک محنت، ان کا صبر اور ان کی خود کو انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دینے کی لگن، بلقیس ایدھی کو ایک عظیم خاتون بناتی ہے۔ وہ ایدھی صاحب کی خاموش طاقت تھیں، ایک ایسی ہستی جس کے بغیر ایدھی فاؤنڈیشن کا تصور نامکمل ہے۔ ان دونوں کی مشترکہ کاوشوں نے ہزاروں بے سہارا افراد کی زندگیوں میں امید کی کرن روشن کی۔ بلقیس ایدھی نے ایدھی صاحب کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ گھر اور ادارے دونوں کو ایک ساتھ سنبھالتی تھیں، اور ان کی قربانیاں کسی بھی صورت میں ایدھی صاحب کی خدمات سے کم نہیں تھیں۔
ایدھی صاحب کا سفر آسان نہیں تھا۔ انہیں اپنے مشن کے دوران بے شمار چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ مالی مشکلات، سماجی رکاوٹیں اور مذہبی انتہا پسندی ان کے راستے میں حائل ہوئیں۔ بہت سے لوگوں نے ان کے کام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کی ایمبولینس کسی کو مذہب یا فرقے کے ترازو میں تول کر نہ اٹھاتی۔ ان کے شیلٹر ہوم میں آنے والا ہر بچہ فقط انسان کہلاتا۔ ان کا جھولا ہر اس نو مولود کے لیے کھلا تھا جسے ظالم سماج نے درختوں کے نیچے یا کوڑے دان میں چھوڑ دیا تھا۔ ہزاروں بچوں کو نئی زندگی دی، ہزاروں عورتوں کو سہارا دیا، ہزاروں بزرگوں کو وہ عزت بخشی جو ان کے اپنے بھی نہ دے سکے۔
اور یہی وہ وقت تھا جب مذہبی شدت پسندوں نے انہیں فتوے دیے، کہا گیا کہ یہ کافروں کو دفناتا ہے، انجان بچوں کو پالنا غیر اسلامی ہے۔ مگر ایدھی رکے نہیں۔ کہتے تھے، "مجھے کسی فرقے سے سروکار نہیں، میں صرف انسان کو دیکھتا ہوں، اس کا دکھ دیکھتا ہوں۔” وہ بسا اوقات اپنے ہاتھوں سے کوڑے سے لاش نکالتے، خود غسل دیتے، خود کفن پہنا کر دفن کرتے۔ کبھی کسی بچے کو گود میں لے کر روتے، کبھی کسی بوڑھی ماں کا ہاتھ تھام کر مسکراتے۔ ان کا قاعدہ یہ تھا کہ خدمت گمنامی میں کی جائے، مگر خدا اسے ساری دنیا میں مشہور کر دے۔ ان کی ثابت قدمی کا راز ان کے یقینِ کامل میں تھا کہ وہ اللہ کی رضا کے لیے انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک کسی بھی انسان کی مدد کرنے میں کوئی مذہب یا قومیت رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ انہوں نے کبھی کسی فتوے یا تنقید کی پرواہ نہیں کی، کیونکہ ان کا مقصد صرف اور صرف انسانیت کی فلاح تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کا عمل اللہ کی خوشنودی کا باعث ہے، اور یہی ان کے لیے کافی تھا۔
ایدھی صاحب کی زبان پر فصاحت نہیں، عمل میں بلاغت تھی۔ نہ وہ خطیب تھے، نہ دانشور۔ ان کے پاس فلسفے کے دفتر نہیں، فقط تجربے کی کتاب تھی۔ یہی وجہ ہے کہ لاکھوں لوگ ان کے ادارے پر بھروسہ کرتے۔ زکوٰۃ، صدقات، خیرات — سب انہی کے پاس آتے۔ نہ کوئی اسکینڈل، نہ کوئی شکوہ، نہ کوئی اشتہار۔ نہ جھنڈا، نہ نعرہ، نہ دعویٰ۔ آج ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت 1800 سے زائد ایمبولینسیں چلتی ہیں۔ ان میں ائیر ایمبولینس، موبائل اسپتال، بلڈ بینک، حتیٰ کہ بیرونی ممالک میں ریلیف مشنز شامل ہیں۔ ان کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہے، مگر ان کے کفن پر کوئی تمغہ نہیں تھا۔ نہ وہ ستارۂ امتیاز چاہتے تھے، نہ کسی صدر کی دعوت۔ وہ کہتے تھے، "اگر کوئی اعزاز مجھے دینا ہے تو میرے غریبوں کو دو، میرے لاوارثوں کو دو۔”
وہ سادہ کپڑوں میں رہتے، لوہے کا پیالہ رکھتے، سادہ چارپائی پر سوتے۔ ان کے دفتر میں فرنیچر نہیں، ان کی گاڑی میں اے سی نہیں، ان کے گھر میں فریج تک نہ تھا۔ مگر ان کا دل اتنا وسیع تھا کہ اس میں پوری انسانیت سما جائے۔ ان کی سادگی صرف ظاہری نہیں تھی، بلکہ ان کی روح میں پیوست تھی۔ وہ دولت کی بجائے خدمت کو اپنی اصل میراث سمجھتے تھے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے منصوبوں میں دسترخوان، لنگر خانے، غریبوں کے لیے شفاخانے، اور ذہنی مریضوں کی بحالی کے مراکز بھی شامل ہیں۔ یہ سب ان کی دور اندیشی اور انسانیت کے لیے ان کے بے پناہ درد کی عکاسی کرتے ہیں۔ انہوں نے ہر اس شعبے میں کام کیا جہاں انسانیت کو مدد کی ضرورت تھی۔
ایدھی صاحب کی خدمات کا دائرہ صرف پاکستان تک محدود نہیں تھا۔ انہیں بین الاقوامی سطح پر بھی بے پناہ پذیرائی ملی۔ اقوام متحدہ نے انہیں "انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بہترین خدمات” کے اعزاز سے نوازا۔ انہیں دنیا بھر سے کئی اعزازات اور تمغے ملے، مگر ان سب کے باوجود وہ ہمیشہ عاجزی اور انکساری کا پیکر بنے رہے۔ وہ عالمی فورمز پر بھی اپنی سادگی اور انسانیت کے لیے اپنی بے لوث خدمات کی نمائندگی کرتے رہے۔ ان کی شہرت نے پاکستان کا نام روشن کیا، مگر انہوں نے کبھی اس شہرت کو اپنے ذات پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ ان کا ایک ہی مقصد تھا: ہر مظلوم اور ضرورت مند کی مدد کرنا، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو۔ انہوں نے کبھی کسی انعام یا ستائش کی پرواہ نہیں کی، ان کا اصل انعام تو لوگوں کی دعائیں اور ان کے دلوں میں موجود عزت تھی۔
قابلِ شرم بات یہ ہے کہ جس ملک نے ان کے ہاتھوں ہزاروں لاشیں دفن کروائیں، اسی ملک کی حکومتوں نے انہیں نظر انداز کیا۔ ان کی زندگی میں بھی، ان کی وفات پر بھی۔ جب وہ 8 جولائی 2016ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے، تو قوم کا ردعمل سرد اور رسمی سا تھا۔ چند تعزیتی بیانات، کچھ دکھاوے کی خبریں، اور بس۔ نہ تعلیمی نصاب نے انہیں جگہ دی، نہ قوم نے ان کے نقشِ قدم پر چلنے کا عہد کیا۔ یہ ایک قومی المیہ ہے کہ ہم نے ایک ایسے محسن کو فراموش کر دیا جس نے اپنی پوری زندگی ہماری خدمت میں گزار دی۔
آج سوشل میڈیا پر جعلی مسیحاؤں کی تصاویر وائرل ہوتی ہیں، ان کے بیانات پر لاکھوں لائکس آتے ہیں، اور ایدھی؟ وہ فقط ان دلوں میں زندہ ہیں جنہوں نے سچ میں دکھ دیکھا ہو، جو کوڑے میں پھینکے بچوں کی چیخ سنتے ہیں، جو جنازے اٹھاتے وقت آنکھیں بند نہیں کرتے۔
فیصل ایدھی آج ان کا مشن سنبھالے ہوئے ہیں، مگر قوم کا رویہ ویسا ہی ہے۔ ادارہ وسائل کی کمی سے نبرد آزما ہے، رضاکار کم ہو رہے ہیں، عطیات گھٹ رہے ہیں، اور ریاست خوابِ غفلت میں مست ہے۔ اگر ہم نے ایدھی کی روش نہ اپنائی، تو کل ہمارے اپنے لوگ ان جھولوں، ان ایمبولینسوں، ان کفنوں کو ترسیں گے۔ یہ وقت ہے کہ ہم ایدھی کے مشن کو اپنا قومی مشن سمجھیں اور اس کی بقا کے لیے عملی اقدامات کریں۔ ہمیں ان کی میراث کو صرف ایک یادگار نہیں بلکہ ایک زندہ تحریک کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
ذرا سوچیے، وہ شخص جو صرف پاکستانی نہیں، انسانیت کا سرمایہ تھا، اگر اس کا نام ہماری درسگاہوں میں نہیں، ہماری دعاؤں میں نہیں، ہماری فکروں میں نہیں، تو پھر ہم کس رخ پر جا رہے ہیں؟ کیا ہم ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جو فقط نعرے بازی جانتا ہے، یا وہ لوگ ہیں جو گریہ کرنے والے چہروں کو مسکرانا سکھاتے ہیں؟
ایدھی کے جنازے میں عوام تو بے شمار تھے، مگر اقتدار کے ایوانوں سے خالی کرسیوں کا سکوت گونج رہا تھا۔ ان کی تدفین کے وقت ان کے جسدِ خاکی کے پاس فقط چند سادہ لوگ تھے، وہی جنہیں انہوں نے کبھی سہارا دیا تھا۔ نہ کوئی عالمِ دین کی رقت آمیز تقریر، نہ کسی وزیرِ اعظم کی آمد۔ بس خامشی، اور خدا کی رضا۔ یہ منظر ہماری بے حسی کا منہ بولتا ثبوت تھا، کہ ہم نے ایک عظیم انسان کو اس کی زندگی میں بھی اور اس کی موت کے بعد بھی وہ عزت نہیں دی جس کا وہ حقدار تھا۔
کاش کوئی مورخ یہ لکھ سکے کہ اس سرزمین پر ایک فقیر گزرا، جو خدا کی رضا کے لیے خلق کی خدمت کرتا رہا۔ جس نے کبھی افسر شاہی سے صلہ نہ مانگا، کبھی میڈیا سے داد نہ چاہی، صرف اس ذات سے راضی رہا جس کے لیے اس نے خود کو وقف کیا۔
کاش ہم اس فقیر کو سجدے میں یاد کریں، اپنے بچوں کو اس کی سیرت سنائیں، اپنے گھروں میں ایک جھولا رکھیں، اپنی مساجد میں ایک صندوق رکھیں، اپنی دکانوں پر ایک پیالہ رکھیں — صرف اس امید پر کہ شاید ہم بھی کل کو کسی کی مدد کریں، جیسے ایدھی نے کی۔ ہمیں ایدھی کے فلسفہ کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہو گا، تبھی ہم ایک بہتر معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
کہتے ہیں، روزِ محشر جب خدا پوچھے گا، "میرے بندے کہاں ہیں؟”
تو وہ فقیر آگے بڑھے گا، سر جھکائے، چادر اوڑھے، اور کہے گا،
"میں تو وہی ہوں جو تیرے ہی بندوں کو اٹھاتا رہا، انہیں غسل دیتا، کفن دیتا، اور تیرے ہی سپرد کرتا۔”
اور خدا کہے گا،
"تو میرے نزدیک وہی ولی ہے جس نے میرے بندوں کو میری مخلوق جان کر سرفراز کیا۔ تو داخل ہو میرے ان خاص بندوں میں جن پر نہ خوف ہو گا نہ غم۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے