آزادی کے 74 سال 377

آزادی کے 74 سال (تحریر : عمران خان رند بلوچ)

پاکستان اپنی آزادی کے 75ویں سال میں قدم رکھ چکا ہے۔ پاکستان بھر میں لوگوں نے 14 اگست یومِ آزادی کو قومی جوش و جذبے سے منایا۔ پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں کہیں بھی بسنے والے پاکستانیوں نے اس دن کو اپنے انداز میں منایا۔ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں بھی جگہ جگہ پاکستان کے پرچم نظر آئے ، اور “کشمیر بنے گا پاکستان” کے نعرے بھی لگائے گئے۔
ملی جوش و جذبہ رکھنے والی متعدد شخصیات نے مطالبہ کیا کہ حکومت اِس سال کو ڈائمنڈ جوبلی سال ڈکلیئر کرے تاکہ سارا سال تقریبات منعقد ہوں، اور سود و زیاں کا حساب ہو۔ جو کچھ حاصل کر لیا گیا، اس پر سجدہ ہائے شکر بجا لائے جائیں، اور جو کچھ حاصل کرنا ہے، اس کا واضح تعین کیا جائے، ہدف ہر شخص کے سامنے ہو، اور وہ اسے حاصل کرنے کی تدبیریں سوچے، اور تجویزیں پیش کرے۔ اپنے اپنے دائرے میں اپنے اپنے حصے کا کام کیا جائے، اور یوں سب مل کر وہاں پہنچ جائیں، جہاں پہنچنا ہر ایک کی دلی خواہش ہے۔

جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس ملک کی آبادی تقریباً تین کروڑ تھی، اور آج یہ بائیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ گویا آبادی میں کم و بیش سات گنا اضافہ ہوا ہے۔ حصولِ آزادی کے وقت ہمارے پاس اپنی پوری آبادی کا پیٹ بھرنے کے وسائل بھی نہیں تھے۔ گندم امریکہ سے درآمد کرنا پڑتی تھی، اور اس کی اہمیت اِس قدر تھی کہ وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے خود بندرگاہ پر جا کر گندم لانے والے جہازوں کا ”خیرمقدم‘‘ کیا تھا، اور بوریاں بھر کر شہر پہنچانے والی اونٹ گاڑیوں پر ”تھینک یو امریکہ‘‘ کی تختیاں لٹکا دی گئی تھیں یا یہ کہیے کہ اونٹوں کے گلے پر انہیں باندھ دیا گیا تھا۔ آج ہم اپنی ضرورت کی گندم، گنا اور دوسری اجناس پیدا کرتے ہیں۔
وزیراعظم کے زرعی امور کے پُرجوش معاونِ خصوصی جمشید چیمہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آئندہ چند برسوں میں پیداوار میں اتنا اضافہ کر لیا جائے گا کہ اجناس کو برآمد کرنا پڑے گا۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس کے باوجود کبھی بے تدبیری کی وجہ سے کچھ درآمد کرنا پڑتا ہے جیسے کہ گندم ،چینی وغیرہ۔ لیکن پاکستان نے صنعتی، تجارتی، ایٹمی اور طبی شعبوں میں بہت تیزی سے قدم آگے بڑھائے ہیں، لیکن بڑھتی ہوئی آبادی مسائل پر قابو پانے میں رکاوٹ بن چکی ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت کے بعد کسی حکومت نے خاندانی منصوبہ بندی کی طرف توجہ نہیں دی، آبادی میں اضافے کے لیے طرح طرح کے نعرے ایجاد کرکے قوم کو ورغلایا جاتا رہا۔ افغانستان سے ملحقہ پاکستانی علاقوں میں تو دیواریں یہ لکھ لکھ کر سیاہ کر ڈالی گئی تھیں کہ: بڑا خاندان، جہاد آسان… یعنی زیادہ بچے پیدا کرکے ان کے ایک حصے کو جہادی سرگرمیوں میں لگا دیجیے، اگر شہادت نصیب ہوگئی تو بھی والدین باقی ماندہ سے کام چلا لیں گے، گھر بے چراغ نہیں ہو گا۔ بعض مذہبی رہنمائوں کی طرف سے یہ بھی کہا جاتا تھا، اور جگہ جگہ دیواروں پر لکھا ملتا تھا کہ ”ایک بچہ دو ہاتھ اور ایک منہ لے کر پیدا ہوتا ہے‘‘… گویا وہ کھانے سے زیادہ کما سکتا ہے۔ ایک بار ایک اعلیٰ سطحی چینی وفد پاکستان آیا تو اس کے سربراہ نے اس سلوگن کا ذکر کیا کہ چین میں بھی اسے لگانے والے کسی نہ کسی حد تک موجود تھے۔ چینی رہنما کا کہنا تھا کہ کوئی ان نعرے بازوں سے پوچھے کہ منہ تو پیدا ہوتے ہی چلنا شروع ہو جاتا ہے، جبکہ ہاتھوں کو کچھ کمانے کے قابل ہونے کے لیے کم از کم بیس بائیس سال لگتے ہیں۔ چین نے بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے کے لیے ایک بچے کی پابندی لگا دی، اب یہ بڑی حد تک نرم ہو چکی ہے، اور دو بچوں کی گنجائش پیدا کر لی گئی ہے، لیکن اگر یہ فیصلہ نہ ہوتا توچین کبھی غربت پر قابو نہ پا سکتا۔ اس کے کمانے والے ہاتھ کھانے والے مونہوں کے مقابلے میں کہیں کم پڑ جاتے۔ پاکستان چین نہیں ہے، لیکن ترغیب و تلقین سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ”بچے دو ہی اچھے‘‘ کے نعرے کو قبول عام مل رہا تھا کہ اس کی ابتدا کرنے والے ہی غائب ہو گئے۔ بنگلہ دیش 1971ء میں پاکستان سے الگ ہوا، تو اس کی آبادی (مغربی) پاکستان سے زیادہ تھی، لیکن آج وہ کہیں کم ہے۔ پندرہ، سولہ کروڑ افراد کے ساتھ وہ چوکڑیاں بھر رہا ہے۔ پاکستان جب تک بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو نہیں پائے گا، ترقی کے خواب ادھورے رہیں گے۔ آبادی بم، ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ہے، اور اِس وقت ہماری (کم از کم) ایک چوتھائی، بلکہ ایک تہائی آبادی ایسی ہے، جس کے لیے نہ سکول ہیں، نہ روزگار، نہ تعلیم ہے، نہ تربیت ہمارے پالیسی ساز لمبی تان کر سورہے ہیں۔

پاکستان جب قائم ہوا تو اس کے پاس وسائل کا فقدان تھا۔ بھارتی نیتائوں اور دانشوروں کا خیال تھا کہ چند ماہ میں یہ نیا ملک گھٹنے ٹیک دے گا، اورانڈین یونین میں واپسی کیلئے کوشاں ہو جائے گا، لیکن پاکستان نے حیرت انگیز رفتار سے ترقی کی، اور چند ہی سال کے اندر اندر اپنے وسائل کو منظم کرکے مسائل میں کمی کرکے دکھا دی۔ قومی معیشت کی شرح نمو مثالی ہوگئی، اور بھارت کے مقابلے میں پاکستانی معاشرہ کہیں خوشحال اور باوقار نظر آنے لگا۔ پوری دنیا اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کی کارکردگی کو بنظرِ تحسین دیکھ رہی تھی، اور پاکستان عالمِ اسلام کیلئے مشعلِ راہ بن رہا تھا۔ پاکستان نے مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کو استاد، ڈاکٹر، انجینئر اور معاشی امور کے ماہر فراہم کئے، اس کی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے طلبہ اور طالبات پورے عالمِ اسلام اور ترقی پذیر دنیا سے سے آ رہے تھے۔ پاکستان عالمِ اسلام کا ”لندن‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ اس نے مسلم ممالک کی بڑی تعداد کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے، اور اپنے مالیاتی اور کاروباری ادارے کھڑے کرنے میں مدد دی، خود پاکستان بھی اپنے دفاع میں خود کفیل بننے کے لیے ایٹمی توانائی کے حصول پر مجبور ہوا۔ اس نے اسے حاصل کر کے معجزہ برپا کر دیا، اور دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور، سوویت یونین نے جب افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کیں تو یہ پوری قوت سے افغان بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ سوویت یونین کو نہ صرف فوجیں واپس بلانا پڑیں، بلکہ اس کا اپنا وجود بھی تحلیل ہو گیا، اس کا وفاق اپنی اکائیوں کو آزاد ہونے سے نہ روک سکا۔ آج دوبارہ وہی تاریخ دہرائی گئی جب امریکی فوج کو شکست دے کر افغان دارالحکومت کابل پر طالبان نے قبضہ کرلیا اور امریکہ نواز صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ پاکستان نے افغانستان میں پرامن حکومت کی تائید کی ہے۔

آج سے ہمیں اس بات کا عہد کرنا ہے کہ اپنے وطن پاکستان کو معاشی اور سماجی طور پر مضبوط بنانے میں کردار ادا کریں گے۔ اس کے ساتھ پاکستان کے دفاعی، عدالتی، احتسابی، انتظامی، قانون ساز اداروں اور پالیسی بنانے والوں کو چاہیے کہ ملکی مفاد کا سوچ کر پالیسی بنائیں ،ہماری معیشت کا بیڑا غرق ہوا جس کے ذمہ دار یہی چاپلوس پالیسی ساز ہیں۔ ہم نے جس طرح دہشتگردی کے خلاف جنگ جیتی اسکی مثال کہیں نہیں ملتی لیکن اب ہمارے اداروں کو چاہیے کہ مستقبل کےلیے عوام دوست منصوبے بنائیں جس میں عوام کےلیے روزگار ہو ،پرامن تعلیم ہو اور صحت کی تمام سہولیات میسر ہوں۔ آخر میں دعا ہے کہ رب کریم ہمارے ملک کو تاقیامت قائم و دائم رکھے۔ اور ہمیں اس ملک کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
پاکستان پائندہ باد

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں