تحریر: عدنان تابش
پاکستان پر اکثر وبیشتر افغان طالبان کو افغانستان میں اپنے فیورٹ کے طور پر دیکھنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ تاہم یہی لوگ یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ امارت اسلامی کے نام سے قائم طالبان حکومت گرانے میں پاکستان نے امریکہ کا سب سے زیادہ ساتھ دیا۔ اڈے اور لاجسٹک سپورٹ دینے کے علاوہ ان کے خلاف امریکہ کو ہر قسم کا انٹیلیجنس تعاون بھی فراہم کیا۔ ان کے سفیر کو مادر زاد برہنہ کرکے امریکہ کے حوالے کردیا۔ طالبان حکومت کے خاتمے پر حامد کرزئی کو نہ صرف پاکستان سے لانچ کیا گیا بلکہ اس کے لئے پاکستان سے اسلحہ اور ووٹ جتوانے کے لئے ووٹوں سے بھرے بکسے بھی بھیجے گئے۔ اس کے علاوہ صدر اشرف غنی کے ساتھ بھی پاکستان اپنی سپورٹ کا اعادہ کرتا رہا ہے۔ اشرف غنی کے دور میں پاکستان کا افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تجارت بھی بڑھ گیا ہے۔
تلخ حقائق لیکن اس سارے دور میں یہی رہے کہ افغان طالبان کی سقوط کے بعد نئی حکومت میں پاکستان کی ختم ہونے والی سپیس کو انڈیا نے بھرنا شروع کردیا۔ انڈیا نے انوسٹمنٹ کے نام پر افغانستان میں دسیوں قونصل خانے کھول دیں۔ اور اس کے بعد پاکستان کے خلاف مغربی سرحد پر ایک خفیہ جنگ شروع کردی۔ جس پر پاکستان نے کئ بار افغانستان سے پرزور احتجاج بھی کیا اور اس حوالے سے اپنے خدشات بھی افغان گورنمنٹ کے سامنے رکھے۔ تاہم پاکستان کے خدشات کے خلاف افغان حکومت نے انڈیا کو مزید سپیس دینا شروع کردیا۔ جس نے اس سپیس کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے ناراض قوتوں کو سٹیٹ کے خلاف لڑنے کے لئے استعمال کیا۔ نتیجتاً پاکستان ایک سول وار کی زد میں آگیا۔ جس میں اندازے کے مطابق تقریباً 70 ہزار پاکستانی لقمہ اجل بنے جبکہ معاشی طور پر بھی پاکستان کو 120 بلین ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔ پاکستان نے اپنے ملٹری فورسز کی قربانیوں کی بدولت اس جنگ کو ختم کردیا۔
افغانستان پر امریکی قبضے کے کچھ ہی عرصے بعد بکھرے ہوئے افغان طالبان نے افغان حکومت کی روایتی کرپٹ نظام حکومت اور کمزور افغان فورسز کا فائدہ اٹھاکر خود کو دوبارہ منظم کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے اس دوران منظم ہوکے نہ صرف افغان فورسز بلکہ غیر ملکی نیٹو فورسز کو بھی مسلسل نشانہ بنائے رکھا۔ امریکہ کو ان کے بقول اصل ہدف اسامہ بن لادن کو قتل کرنے کے باوجود اپنی تاریخ کے اس طویل ترین جنگ سے خود کو نکالنے میں بیس سال کا عرصہ لگا۔ اس دوران امریکہ کی طرف سے افغان طالبان کو مذاکرات پر راضی کرانے کے لئے پاکستان کے اوپر دباؤ بڑھنے لگا۔ تو پاکستان نے طالبان کے اوپر ماضی کے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لئے بٹھا دیا۔ طالبان چونکہ افغان حکومت کو امریکی کٹھ پُتلی سمجھتے ہیں، اس لئے انہوں نے مذاکرات میں اپنی اولین شرط یہ رکھی کہ ان مذاکرات میں صرف غیر ملکی شامل ہوں گے اور افغان حکومت شامل نہیں ہوگی۔ دو سال کے مذاکرات کے نتیجے میں بالآخر فروری 2020 میں طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحہ معاہدہ طے پایا۔ جس کی رو سے طالبان اپنے زیر انتظام علاقوں میں کسی غیر ملکی شدت پسند تنظیم بشمول القاعدہ اور داعش کے پنپنے نہیں دینا ہوگا جبکہ اگست 2021 تک امریکہ بشمول اپنے اتحادیوں کے افغانستان کی سرزمین سے نکل جائے گا۔ مذاکرات کے دوران پہلی دفعہ طالبان کو عالمی دنیا کے سامنے بیٹھنے کا موقع ملا تو انہوں نے سیاسی طور پر انہوں نے عالمی رہنماؤں کو حیران کردیا۔ اور دنیا ان کی ذہانت کی معترف ہوگئ، جس کی طرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اشارہ کیا۔ جو ہمارے قوم پرست دوستوں کو کافی برا بھی لگا۔ مذاکرات میں طالبان نے نا صرف اپنے مفادات کا مکمل دفاع کیا بلکہ افغان حکومت کی قید میں موجود اپنے 5 ہزار رضاکاروں کو بھی رہائی دلوائی۔ اس دوران امریکہ کے ذریعے دباؤ ڈال کے پاکستان میں گرفتار اپنے رہنما ملا برادر کو بھی رہا کروادیا۔ دوحہ معاہدے کی رو سے طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے تھے تاہم ان مذاکرات کا حتمی نتیجہ کیا ہوگا۔ اس بارے میں نہ امریکی اور نا ہی طالبان کی طرف سے کوئی واضح بات سامنے آئی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کے دہائیوں کے باوجود امریکہ افغانستان میں بغیر کسی سیاسی حل کے نکل رہا ہے۔ اور یہی بات خطے کے ممالک میں افغانستان کے حوالے سےاندیشے بڑھا رہی ہیں۔ دوسری طرف افغان حکومت کو صدر جوف بائیڈن واضح پیغام دے چکے ہیں کہ افغانستان میں امن وامان کی مزید ذمہ داریاں اب افغانستان کے لوگ خود اٹھائے۔ انخلاء کے سلسلے میں امریکہ افغانستان میں موجود اپنا سب سے بڑا اڈہ بگرام ائر بیس پہلے ہی خالی کرچکا ہے۔ امریکہ کے افغانستان سے مکمل انخلاء کی تاریخ قریب آنے کے ساتھ طالبان کی ملک کے مختلف حصوں میں پیش قدمی بھی تیز ہوگئی ہے۔ بگرام اڈے سے رات کی تاریکی میں اپنے افغان حلیفوں کو خبر کئے بغیر امریکی انخلاء کا نفسیاتی فائدہ طالبان کو مورال کی بلندی کی صورت میں ہوا، دوسرا فائدہ اس سے ان کو یہ ہوا کہ وہ اسے اپنی فتح کے طور پر دنیا اور افغان عوام کو دکھا رہے ہیں۔ تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ بگرام سے امریکی انخلاء کی وجہ سے افغان فوج کا مورال بہت گرچکا ہے۔ وہ کبھی طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں تو کسی جگہ افغان فورسز بغیر کسی مزاحمت کے ضلعوں کا کنٹرول طالبان کو چھوڑ رہے ہیں۔ افغانستان میں اس وقت تک ایک اندازے کے مطابق تقریباً 200 اضلاع پر طالبان کا کنٹرول ہیں، جبکہ افغانستان کی دیگر ممالک کے ساتھ سرحدی گذرگاہوں میں سے ایران بارڈر پر اسلام قلعہ، تاجکستان کے ساتھ شیرخان بندر، ترکمانستان کے ساتھ لگنے والے تورغنڈئی اور پاکستان کے ساتھ لگنے والے ضلع باجوڑ کے ناواپاس اور آج ہی سپین بولدک بارڈر پر قابض ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان غزنی، بادغیس، قندہار سمیت بڑے شہروں پر اپنے حملوں کے ذریعے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ طالبان کو شہروں میں جنگ کرنے پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے، تاہم دیہی علاقوں میں ان کے سامنے کوئی قوی مزاحمت سامنے نہیں آرہی۔ طالبان کی اس یلغار کے سامنے نہ ٹکنے والی افغان حکومت نے پرانے طرز پر ایک دفعہ پھر پاکستان کو الزامات کی بوچھاڑ شروع کردی ہے۔ اور ہر روز ان کا کوئی وزیر، مشیر یا دیگر عہدیدار پاکستان کے اوپر الزام تراشیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ ماضی کے برعکس اس دفعہ طالبان مشرق اور جنوب کی بجائے شمالی اور مغربی صوبوں میں افغان حکومت کے خلاف قوت کا بھرپور استعمال کر رہی ہے۔ پاکستان کی طرف سے اگرچہ بارہا یہ یقین دہانی کرائی جاچکی ہیں کہ افغانستان میں ان کا کوئی فیورٹ نہیں ہے، اور ان کا وہی فیورٹ ہے جو افغانستان کے عوام کا فیورٹ ہوگا۔ تاہم افغانستان کی بدلتی صورتحال کے باعث خطے کے ممالک بشمول انڈیا، روس، ایران، چین اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک اپنی سٹریٹجی بنا رہے ہیں، اس کے علاوہ وہ مبینہ طور پر طالبان کے ساتھ اپنے روابط بھی بڑھا رہے ہیں۔ اس حوالے سے چین کی تشویش ممکنہ طور پر ایغور مسلمانوں کی طرف سے افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے پر ہوسکتی ہے، ایران کو افغانستان میں داعش کی پنپنے کا ڈر طالبان سے بہتر تعلقات پر مجبور کر رہا ہے۔ جبکہ پاکستان کو ممکنہ طور پر ٹی ٹی پی کے افغان طالبان سے تعلق پر تشویش ہوسکتی ہے۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ طالبان نے پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی کی ہے جو ان کی جدید دنیا کے ساتھ مستقبل میں کام کرسکنے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔اس کے علاوہ آج برطانیہ کے وزیر دفاع نے بھی کہا ہے کہ مستقبل میں وہ طالبان حکومت کے ساتھ انسانی حقوق کی پاسداری کی شرط پر کام کرسکتے ہیں۔ افغان طالبان کی پاکستان کو کرانے والے یقین دہانی پر سب سے بڑا سوالیہ نشان پاکستانی شدت پسند تنظیم ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے تعلقات کی نوعیت پر ہے کہ وہ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ سوال بھی اہم ہے کہ دیگر ممالک کی طرف سے طالبان کی افغان حکومت کے ساتھ سیاسی مفاہمت کے حوالے سے پاکستان پر کتنا دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ اور وہ اس دباؤ کو کس حد تک برداشت کرتا ہے۔ ماضی اور حال کے احوال کے تجزیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں کسی کو بھی فیورٹ رکھنے کی خواہش نہیں ہے۔ بلکہ وہ ہر افغان حکومت کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے۔ تاہمافغان حکومت اپنی پریشانی اور کمزوری کو چھپانے کے لئے جو الزامات پاکستان پر لگا رہی ہیں۔ اس سے مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات کی پوزیشن خراب ہوسکتی ہے۔ افغان حکومت کی حد تک تو پاکستان پر تنقید کی بات سمجھ آجاتی ہے، تاہم اس دوران ان کے پاکستان میں حامی سمجھے جانے والے پی ٹی ایم رہنماؤں نے بھی توپوں کا رخ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طرف کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ تاہم بقول سینیئر صحافی سلیم صافی ان کو پاکستانی ریاست کی افغان طالبان کی طرف جھکاؤ تو نظر آرہی ہے، تاہم امریکیوں کی افغان حکومت سے بے وفائی اور طالبان پر عنایات نچھاور کرنے پر انہیں کوئی گلہ تک نہیں اور نہ ہی امریکہ کے خلاف کوئی جلوس نکال رہے ہیں۔ ویسے پشتونوں کے تحفظ کے نام پر بنے، لینڈ مائنز کی صفائی، لاپتہ افراد، چیک پوسٹوں کی کمی اور جنگ کے دوران نقصان سہنے والوں کے لئے معاوضے جیسے مطالبات سے شروع ہونے والے پشتون تحفظ مومنٹ اپنے راستے سے ہٹ تو نہیں گئی ہے؟ افغانستان میں ہم کس کو سپورٹ کریں، اور کیوں کریں اس کے جواب سے پہلے محسن داوڑ صاحب کے لئے اس بات کو ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی فیورٹزازم کی نہیں بلکہ اپنے مفادات کی بنیاد پر بنتی ہے۔
