جب قوم کا مستقبل بے روزگاری کے در پر سسکنے لگے
ملک ترقی کر رہا ہے یہ جملہ جب بھی کسی حکومتی نمائندے کے منہ سے نکلتا ہے تو یا تو مہنگائی کا گراف ہنسی میں بدل جاتا ہے
کالم نگار: پروفیسر محمد رزاق امن وٹو:پی این پی نیوز ایچ ڈی
ملک ترقی کر رہا ہے یہ جملہ جب بھی کسی حکومتی نمائندے کے منہ سے نکلتا ہے تو یا تو مہنگائی کا گراف ہنسی میں بدل جاتا ہے یا بے روزگار نوجوانوں کی آنکھوں میں آنسو بن کر ٹھہر جاتا ہے۔ ہمارا پیارا وطن اس وقت جس سب سے بڑی آفت کا شکار ہے، وہ نہ بجلی ہے، نہ گیس، نہ پانی بلکہ بے روزگاری ہے، جو ایک سست زہر کی طرح قوم کے نوجوانوں کو نگل رہی ہے۔
ڈگریاں؟ جی ہاں، ہمارے ہاں ڈگریاں ایسی ہیں جیسے کسی میٹھے خواب کا خوبصورت کاغذی لفافہ، جس کے اندرسوائے مایوسی کے کچھ بھی نہیں۔ ہر سال یونیورسٹیوں سے ہزاروں طلبہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، مگر جب نوکری کا در کھٹکھٹاتے ہیں تو جواب میں صرف مزید تجربے کی ضرورت ہے یا عمر کی حد پار کر چکے ہیں جیسے جواب ملتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تجربہ کہاں سے آئے؟ اور عمر کیوں نہ بڑھے جب ہر دروازہ بند ہو!
یونیورسٹیوں سے نکلنے والے ہونہار نوجوانوں کا خواب ہوتا ہے کہ وہ ایک باعزت نوکری حاصل کریں، والدین کے خواب پورے کریں، خود مختار بنیں۔ مگر ہر طرف آسامیاں خالی نہیں آرڈر روک دیے گئے ہیں اور سب سے مزے کی بات امیدوار بہت زیادہ ہیں آخر اتنی زیادہ درخواستیں جاتی کہاں ہیں؟ شاید پنجاب پبلک سروس کمیشن اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے دفاتر میں ہر سال اتنا کاغذ آتا ہے کہ اگر انہیں اکٹھا کیا جائے تو ایک نیا بجٹ بنایا جا سکتا ہے۔
اور رہی بات فیسوں کی! ہر امتحان، ہر درخواست، ہر اٹیسٹیشن… سب کچھ کاروبار بن چکا ہے۔ لگتا ہے سرکاری ادارے صرف فیسیں لینے کے لیے بنے ہیں۔ ایک طرف تو نوجوانوں سے روزگار کے نام پر فیسیں بٹوری جاتی ہیں،
دوسری طرف ان کا مستقبل اندھیرے میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ آخر یہ رقم کہاں جاتی ہے؟ اگر یہی پیسہ کسی پروجیکٹ میں لگایا جاتا تو شاید ہم آج بے روزگاری کا نوحہ نہ پڑھ رہے ہوتے۔
بات صرف سرکاری نوکریوں کی نہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر بھی مزے سے اپنی مرضی کے معیار پر چل رہا ہے۔ نہ کوئی تنخواہ کا پیمانہ، نہ کوئی بھرتی کا شفاف طریقہ۔ ضرورت ہے ایک قومی ڈیٹا بیس کی، جہاں ہر تعلیم یافتہ فرد کا پروفائل موجود ہو۔ نوکری آتے ہی متعلقہ امیدوار کو اطلاع ملے، درخواست جمع ہو اور فیس؟ معاف ہو جناب! کیونکہ تعلیم کاروبار نہیں، حق ہے۔
حکومت کو صرف ہمدردی کے بیانات سے آگے بڑھنا ہوگا۔ اگر حقیقی تبدیلی چاہیے تو نوجوانوں کے لیے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری منصوبے شروع کروائیں۔ ہر یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ کو حکومت فنڈ دے،یا کم از کم ان کے منصوبوں کی رہنمائی کرے۔ اگر حکومت نہیں کرتی، تو نوجوانوں کو خود میدان میں آنا ہوگا۔ پانچ لوگ مل کر روزگار کا منصوبہ بنائیں، بیس مل کر ایک ادارہ قائم کریں۔ ہم اگر کمیشنوں کو کروڑوں دے سکتے ہیں تو خود کو کیوں نہیں؟
اور ہاں، دورِ جدید ہے۔ اگر آپ کے پاس ڈگری ہے مگر نوکری نہیں، تو انٹرنیٹ کھولیں! فری لانسنگ، آن لائن ٹیچنگ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، یوٹیوب… مواقع کی بھرمار ہے۔ O/A لیول، IB، IGCSE جیسے کورسز پڑھائیں،کمپیوٹر لینگویجز سکھائیں، یا اپنی تخلیقی ویڈیوز سے دنیا بھر کے ناظرین کو محظوظ کریں۔ ٹیلنٹ کی قدر یہاں بھی ہے، بس قدم اٹھانے کی دیر ہے۔
یاد رکھیں، جو قومیں اپنی پیداوار پر بھروسہ کرتی ہیں، وہی خود مختار بنتی ہیں۔ ہمیں اپنے وسائل خود پیدا کرنے ہوں گے، باہر جانے والے زرِ مبادلہ کو روکنا ہوگا، اپنی انڈسٹری، اپنے نوجوان، اپنے ہنر پر یقین کرنا ہوگا۔ ورنہ اگلی نسل ہماری صرف ڈگریاں پڑھے گی… اور کہے گی:
یہ وہ لوگ تھے جن کے پاس خواب تو بہت تھے، لیکن ہنر کو خوابوں میں ہی دفن کر دیا.