سیدہ نمیرہ محسن شیرازی :پی این پی نیوز ایچ ڈی
روز محشر
جب خدا جرم پوچھے گا
اس لڑکی سے جو زندہ دفنائی گئی
تو تم سب بھی موجود ہو گے!
جو روز جلتے جسم
اجڑے دل
اور ادھڑی روحوں پر
اپنی فتح کے جھنڈے گاڑتے ہو
جواب سوچ رکھو!
کہ اب بھی بیٹی زندہ گاڑی جاتی ہے
پھولوں سے سجا کر
کھٹولے میں بٹھا کر
ماری جاتی ہے
اس روز وہ آئے گی
جو غیرت کے نام پر
جلائی گئی
اپنے بھائیوں کی ضد کو نبھاتی
کسی دیوتا کے چرنوں میں چڑھائی گئی
جواب سوچ رکھو!
اس روز وہ آئے گی
جو اک مرد کی دلبستگی کی خاطر
کسی نہر کنارے
کسی گمنام وادی میں
کسی پہاڑ کی انجان کھوہ میں
کسی کنوئیں کی تہہ میں
بے گوروکفن
آسمان کی جانب اپنی نیم وا آنکھوں سے تکتی
بسائی گئی
جواب سوچ رکھو!
اس روز وہ آئے گی جس کو
اس کا باپ بیاہ نہ سکا
وہ بیٹا بن کے اجڑی
اپنے باپ کا کندھا بنتے بنتے
اپنے پرتوڑ بیٹھی
وہ جس نے اپنی کوکھ سے کوئی اولاد نہ پائی
دوجوں کی اولادوں کو تھپکتی
اپنی ممتا کو سلاتی
اپنے بوڑھے باپ کا بوجھ بٹاتی
دنیا کے طعنوں سے کچلی ادھڑی
اللہ کے تخت کو پکڑے
اگر پوچھ لے گی
میری کیا خطا تھی؟
جواب سوچ رکھو!
اس روز وہ آئے گی
جسے بے گھر کیا تھا
اس کی جوانی برت کر
بڑھاپے میں بے مول کیا تھا
وہ اپنے چاندی سر پر
دکھوں کی چادر اوڑھ نکلی
وہ جس کی ہتھیلی
زندگی کا سودا کرکے
اک اجگر کے دل کو گھر کرکے
جل چکی تھی
پھر بھی خالی تھی
جواب سوچ رکھو!
حساب سوچ رکھو!
جناب ہوش رکھو!