پانی دشمن کا ہتھیار یا پاکستان کی طاقت
پاکستان کی بدنصیبی دیکھئے کہ ایک طرف بارش ہو تو سیلاب کا طوفان آجاتا ہے
کالم نگار پروفیسر محمد رزاق امن وٹو :پی این نیوز ایچ ڈی
پاکستان کی بدنصیبی دیکھئے کہ ایک طرف بارش ہو تو سیلاب کا طوفان آجاتا ہے، کھیت کھلیان ڈوب جاتے ہیں، بستیاں بہہ جاتی ہیں، اور دوسری طرف بارش نہ ہو تو ہم پانی کے لئے ترستے ہیں۔ گویا ہم مستقل طور پر یا تو ڈوب رہے ہوتے ہیں یا مرجھا رہے ہوتے ہیں۔ یہ دو انتہائیں ہماری معیشت اور کسان دونوں کو نگل رہی ہیں۔ بھارت جب چاہے ہمیں پانی چھوڑ کر برباد کر سکتا ہے اور جب چاہے روک کر قحط ڈال سکتا ہے۔ یوں پانی ایک ایسا ہتھیار ہے جس نے پاکستان کی سلامتی پر ہر وقت تلوار لٹکائے رکھی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس صورتحال کو اپنی طاقت میں بدل نہیں سکتے؟
میں نے اس سلسلے میں دو ماڈل سوچے ہیں۔ پہلا ماڈل دریا کے دونوں کناروں پر نیم دائرہ نما ذخائر بنانے کا ہے، جیسے کسی اسٹیڈیم کے گھیرے میں نشستیں بنتی ہیں۔ راوی کا کیس لیجیے تو ایک کلومیٹر رداس کے حساب سے ایک طرف تقریباً ایک سو نوے اور دوسری طرف بھی اتنے ہی ذخائر بن جائیں گے، یوں کل تین سو اسی چھوٹے چھوٹے ذخائر وجود میں آئیں گے۔ ہر ذخیرہ ایک علیحدہ فش فارم بن سکتا ہے، جسے لیز پر بھی دیا جا سکتا ہے اور جس سے مسلسل آمدنی بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اگر ایک ذخیرے پر اوسطاً پچاس کروڑ روپے لاگت آئے تو پورے راوی پر یہ خرچ تقریباً ایک سو نوے ارب روپے بنے گا۔ بظاہر بڑی رقم ہے مگر حقیقت میں یہ دو تین میٹرو منصوبوں کے برابر ہے۔ اور اگر ہر ذخیرہ سالانہ دو کروڑ روپے منافع دے تو صرف پانچ سال میں سرمایہ واپس ہو جائے گا۔ اس کے بعد یہ پورا منصوبہ خالص منافع ہی منافع ہوگا۔
اس ماڈل کی ایک اور اہم خوبی یہ ہے کہ سیلاب کا پانی انہی چھوٹے چھوٹے ذخائر میں ایڈجسٹ ہو جائے گا، بستیاں ڈوبنے سے بچ جائیں گی اور کھیت محفوظ رہیں گے۔ کسانوں کو سارا سال مسلسل پانی ملتا رہے گا اور سب سے بڑی بات یہ کہ بھارت کی طرف سے پانی روکنے یا چھوڑنے کی جو دھمکیاں ہمیں ہر وقت دی جاتی ہیں، وہ بے اثر ہو جائیں گی۔ دہشت گردی کا یہ مستقل ہتھیار ہمارے خلاف ناکام ہو جائے گا۔ گویا ہم پانی کی کمی سے بھی بچ جائیں گے اور سیلاب کے عذاب سے بھی۔ اس منصوبے کے ذریعے پاکستان نہ صرف اپنی زراعت کو محفوظ بنا سکتا ہے بلکہ مچھلیوں کی فارمنگ سے اربوں روپے کی نئی صنعت کھڑی کر سکتا ہے۔ نیم دائرہ نما یہ ذخائر منظر کے اعتبار سے بھی خوبصورت ہوں گے اور معیشت کے اعتبار سے بھی نفع بخش۔
دوسرا ماڈل کچھ زیادہ بڑا مگر زیادہ جامع ہے۔ اس میں تجویز یہ ہے کہ ہر پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بڑا جنکشن ڈیم بنایا جائے، جس سے cascade-style نہریں اور ذخائر نکلیں۔ یوں دریا ایک زنجیر کی طرح مسلسل جُڑے ہوئے حصوں میں بہتا رہے گا۔ یہ منصوبہ نسبتاً مہنگا ہے۔ ایک جنکشن پر دو سو ارب روپے خرچ آئے گا اور اگر راوی پر پانچ جنکشن بنائے جائیں تو لاگت ایک ہزار ارب روپے تک پہنچ جائے گی۔ مگر اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہر جنکشن سے ہزاروں ایکڑ زمین کو مستقل پانی ملے گا، ہائیڈرو پاور پلانٹ بن سکیں گے، سیاحت کو فروغ دیا جا سکے گا اور فش فارمنگ بھی کی جا سکے گی۔ اگر سیاحت سے سالانہ پچاس ارب روپے کمائے جائیں اور زرعی پیداوار میں صرف دس فیصد اضافہ ہو تو یہ سرمایہ کاری اگلے پندرہ سال میں دوگنی واپس آ سکتی ہے۔
اس ماڈل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پاکستان نہ صرف پانی بچانے والا ملک ہوگا بلکہ پانی بیچنے والا ملک بھی بن سکتا ہے۔ جب ہمارے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ ذخیرہ ہو تو ہم خطے کے دیگر ملکوں کو پانی فراہم کر کے بھی آمدنی پیدا کر سکتے ہیں۔ بھارت کی پانی کی دہشت گردی اس ماڈل کے بعد محض ایک بے معنی دھمکی رہ جائے گی، کیونکہ ہمارے پاس اپنی ضرورت کے مطابق ذخیرہ اور انتظام ہوگا۔
یوں دیکھیے تو پہلا ماڈل نسبتاً کم خرچ اور جلدی نتیجہ دینے والا ہے، جبکہ دوسرا ماڈل بڑا، طویل المیعاد اور ہمہ گیر فوائد کا حامل ہے۔ لیکن دونوں میں ایک بات مشترک ہے کہ یہ ہمیں سیلاب سے بھی بچاتے ہیں، قحط سے بھی، پانی کی سیاست سے بھی اور دہشت گردی کے اس ہتھیار سے بھی جو ہمارے خلاف ہمیشہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
پاکستان کے پاس اس وقت دو ہی راستے ہیں: یا تو ہم یونہی سیلاب کا رونا روتے رہیں اور پانی کی کمی پر ایک دوسرے کو کوستے رہیں، یا پھر حوصلہ کر کے اپنے دریاؤں کو اپنی تقدیر بدلنے کے لئے استعمال کریں۔ اگر ہم نے پانی کے ان ماڈلز میں سے کسی ایک کو بھی حقیقت کا روپ دے دیا تو یہ صرف زراعت نہیں بچے گی بلکہ پاکستان کی معیشت، سیاست اور سلامتی بھی محفوظ ہو جائے گی۔