تحریر :- ظہیر اے چوہدری
کالم :- فرنٹ پیج
اس بار سوچا کہ سیاست کی بجائے انسان کی اپنی ذات کے لیے کچھ تحریر کیا جائے، گزشتہ دنوں ایک نوجوان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ نوجوان زندگی کی مایوسی سے تنگ آکر خود کشی کر بیٹھا، میں سمجھتا ہوں کہ ایسے افراد میں صرف و صرف ایک مثبت رجحان کی کمی ہوتی ہے۔ جسکی وجہ سے ہمارے نوجوان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دو بیٹھتے ہیں۔ حالانکہ صرف تھوڑی سی غور و فکر سے انسان اپنے لیے اور معاشرے کے لیے سود مند ثابت ہو سکتا ہے، اگر آپکو اپنی سمت کے رجحان کی سمجھ نہیں آ رہی تو آپ کسی کو اپنا بابا، پیر یا مرشد سمجھ کر اپنی زندگی کے لیے بہترین رہنمائی لے سکتے ہیں، ضروری نہیں ایسا بابا، پیر یا مرشد آپ سے بڑا ہو، یا صرف مذہبی ہو، اللہ پاک کی ذات نے ایسے بیشمار لوگوں کی ڈیوٹیاں لگائی ہیں جو معاشرتی مشکلات کے حل رکھتے ہیں۔ بس کمی اس امر کی ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو تلاش نہیں کرتے۔ تاہم آج کے اس تیز ترین دور میں بعض اوقات انسان کو اتنا وقت بھی نہیں ملتا کہ وہ کچھ اپنے بارے میں تھوڑا سا یکسو ہو سکے۔ کیونکہ انسان کو جہاں اپنی خامیاں نظر نہیں آتیں تو بعض اوقات اپنی خوبیوں کا ادراک بھی نہیں ہوتا۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ کچھ کامن خوبیاں جو کہ تقریباً ہر انسان میں ہوتیں ہیں لیکن کچھ افراد انکا پرچار کرنا اپنی عادت بنا لیتا ہیں۔ اپنے اندر کی منفرد خوبیوں کو پہچاننے کے لیے بہرحال ایک بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔
آپکا منتخب کیا ہوا شعبہ کوئی بھی ہے، اس میں کامیابی کی اساس رجحان پر ہی مبنی ہے۔ جیسے کہ آپ اگر خوش ہیں تو قوی امکان ہے کہ آپ قناعت پسند ہیں۔ اسی کے برعکس آپ کے پاس ضروریات حیات کے لیے اثاثہ جات کی صورت میں یا استعمال کی صورت میں کچھ موجود ہے لیکن آپ خوش نہیں، تو اسکا مطلب ہے کہ آپ قناعت پسند نہیں۔ راقم یہاں سمجھانے کے لیے ایک مثال پیش کرنا چاہے گا۔
آپ نے کئی سیاحتی مقامات یا بازاروں میں کسی شخص کو پانی کے بلبلے بیچتے ہوئے دیکھا ہوگا، اس کے پاس صابن والا محلول ہوتا ہے، اس محلول میں وہ ایک سپرنگ والی قلم ڈبوتا ہے، پھر اس سپرنگ کے دائرے کو اپنی پھونک لگاتا ہے، جس سے رنگ برنگے غبارے نما بلبلے ہوا میں اڑتے ہیں جو خاص طور پر بچوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتے ہیں، تاہم پھر اسکا کاروبار چلتا ہے۔ جیسے ہی اسکا کام مندا ہوتا ہے وہ فوراً محلول میں قلم ڈبوتا ہے، پھونک لگاتا ہے تو خوبصورت چھوٹے چھوٹے بلبلے ہوا میں اڑتے ہیں، بچوں کی نظر پڑتی ہے تو پھر اسکا کچھ نہ کچھ اس قلم سمیت محلول بکتا ہے۔ ایک دن ایسا ہوتا ہے کہ ایک بچہ اس شخص سے سوال کرتا ہے کہ انکل اگر بلبلے کالے رنگ کے ہوں تو کیا وہ بھی اڑیں گے؟ اس نے جواب دیا بیٹا بلبلے اپنے رنگ کی وجہ سے نہیں اڑتے، بلکہ اس کے اندر جو ہوا ہوتی ہے وہ اس سے اڑتے ہیں۔
یہی اصول ہماری زندگیوں میں ہے، یعنی جو کچھ ہمارے اندر ہے وہی اڑ رہا ہے، وہی لوگ دیکھ رہے ہیں۔ سو ہمارے اندر کی ہوا ایک رجحان ہے۔ وہ رجحان ہمارے اچھائی کے بلبلوں کو بھی اڑائے گا اور ہماری برائی کے بلبلوں کو بھی اڑائے گا۔ لیکن رجحان کو اپنے مطابق کرنا یہ آپکے بس میں ہوتا ہے۔ کیونکہ ہمارا رجحان ہی ہمیں کامیابی یا ناکامی دیتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کا پروفیسر ولیم جیمز کہتا ہے کہ “میری نسل کی عظیم ترین دریافت یہ ہے کہ انسان اپنے ذہنی رجحان کو بدل کر اپنی زندگیوں کو تبدیل کر سکے” مزید تحقیق سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جب بھی کوئی فرد ملازمت کرتا ہے، پھر اس میں ترقی پاتا ہے یا کوئی فرد کاروبار کرتا ہے پھر اس کاروبار کو بڑھاوا دیتا ہے تو کامیابی یا ناکامی کا تناسب ٪85 سبب اس فرد کا اپنا رجحان ہے۔ جبکہ ایسے فرد کی ذہانت کے مخصوص اعداد و شمار ہیں یعنی آپ ذہانت کو ٪15 کہہ سکتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ٪100 بجٹ درس و تدریس پر اس لیے خرچ کرنا چاہیں گے کہ ہمیں بہترین اذہان چاہیے؟ حالانکہ کامیابی میں تناسب صرف ٪15 ہے؟ جی ہاں بالکل ہم ایسا ہی کر رہے ہیں۔ ہمیں کامیابی کے لیے ذہانت سے زیادہ رجحان کی ضرورت ہے۔ اگر بذریعہ تعلیم و تربیت ہم اپنی نسل کا رجحان مثبت سمت کی طرف نہیں لے جا سکے تو بھر ہمیں سوچنا پڑے گا۔
قارئین لفظ “رجحان” کو معمولی لفظ نہیں بلکہ ایک بہت اہم لفظ ہے۔ کیونکہ اسکا اطلاق ہر شعبہ ہائے زندگی پر ہے۔ بیشک ہر فرد کی ذاتی زندگی ہو یا پیشہ ورانہ، اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں مختلف شعبہ جات میں کچھ کامیاب افراد نظر آئیں گے۔ آپ اپنی بصیرت کے مطابق تھوڑی سی تحقیق کریں تو آپکو معلوم ہو جائے گا کہ اس کامیاب انسان کے پیچھے ایک مخصوص رجحان ہے جس نے اس فرد کو کامیابی کی سیڑھیاں عبور کرنے کی جلا بخشی ہے۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ رجحان ہی اصل کامیابی کی کنجی ہے۔ اگر رجحان کامیابی کے لیے اتنا اہم ہے، تو کیا ہمیں اپنی زندگی کے لیے اپنے رجحانات کا تجزیہ نہیں کرنا چاہیے؟ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ بعض افراد، ادارے اور کچھ ممالک دوسروں سے زیادہ کامیاب کیوں ہیں؟ آپ یقین مانیں کے اس میں کوئی راز کی بات نہیں ہے بلکہ بالکل عام بات ہے۔ وہ اس لیے کامیاب ہیں کیونکہ وہ زیادہ مؤثر انداز میں سوچتے ہیں اور پھر اس پر عمل بھی کرتے ہیں، یہی رجحان انکو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔
معاشرے میں بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمارے رجحان کی سمت کا تعین ٹھیک نہیں ہوتا، جسکی وجہ سے مطلوبہ نتائج کا حصول مشکل ہو جاتا ہے، تو پھر ہمیں اپنا رجحان تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لیکن ہم وہ رجحان تبدیل نہیں کرتے، اس لیے کہ ہم اپنے فیصلے کی تبدیلی کو انا کا رنگ دے بیٹھتے ہیں لہذا اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ ہم مایوس ہو کر اپنی کامیابی کا سفر روک لیتے ہیں یا پھر خودکشی کا سوچتے ہیں۔ یاد رکھیے اپنے رجحان کو سہی سمت کی طرف گامزن کرنے کے لیے آپکو جتنے مرضی فیصلے بنانے یا توڑنے پڑیں تو آپ ایسا ضرور کریں۔ انشاء اللہ ایک اچھا محنتی رجحان حاصل کرنے کے بعد آپ کامیاب ضرور ہونگے۔