افغانستان میں ہمارا فیورٹ کون؟ 500

قصہ ایک شریف لڑکے کا جو معاشرے کے تھوڑے سے تلخیوں سے فرار اختیار کرکے کیسے منشیات کی لت میں مبتلا ہوگیا تھا اور کس طرح وہ واپس نارمل زندگی کی طرف آنے کے قابل ہوا

تحریرعدنان تابش

ریڈیو اباسین ایف ایم 88 کی طرف سے منشیات کی روک تھام کے حوالے سے ایک پروگرام میں دانش کا نام سن کر میں چونک گیا۔ پوری کہانی سنی۔ تو آنکھوں میں آنسوں آگئے۔ گھر سے سیدھا منشیات کے علاج کی غرض سے بننے والے علاقے کے ہسپتال گیا۔ وہاں دیکھا تو دانش وہی دانش تھا، جو یونیورسٹی میں میرا کلاس فیلو رہا تھا۔ میری آنکھوں میں آنسوؤں تیرتے رہے، کہ کہاں ناز و نعم سے پالا ہوا دانش اور اب اس حالت میں۔ آنسوؤں کی اس لڑی میں دانش کے ساتھ گزری لائف یاد آرہی تھی۔
ایک رات جبکہ ہم ہاسٹل میں سٹڈی میں مصروف تھے، دانش نے سیگریٹ سلگائی اور میری جانب بڑھاتے ہوئے کہا چلوں آپ بھی ایک کش لگالو! اس سے دماغ یکدم ایکٹیو ہوجائے گا۔ یار اس ایک سیگریٹ کے پینے سے کچھ بھی نہیں ہوتا، تم ویسے ہی ڈرتے ہو۔
نہیں یار ماں نے بہت سختی سے منع کیا ہے، کہ کبھی کسی نشے کی طرف دیکھنا بھی نہیں۔ میں سب کی ناراضگی مول سکتا ہوں ماں جی کی نہیں۔ امتحان کے دن قریب تھے، اور ہاسٹل میں پیپرز کی تیاریوں کے لئے دیر رات تک جاگنا پڑتا تھا۔ میرے جواب پر دانش ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے لاپرواہی سے سیگریٹ کے دھوئیں سے اپنا چہرہ چھپانے کی کوشش کرنے لگے، اور ساتھ میں اختر ذوق کا یہ شعر گنگنانے لگا۔
اے ذوق دیکھ دخترِ رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔

میرے استفسار پر وہ بتانا چاہ بھی رہا تھا اور نہیں بھی کہ کیسے اس کو یہ عادت پڑی۔ پہلے پہل اس نے بھی ایک دوست کے کہنے پر ایک کش لگایا تو پہلے فرصت میں اس کو سیگریٹ کے دھوئیں میں اپنائیت نظر آنے لگی، اسی اپنائیت میں سیگریٹ سلگاتے سلگاتے وہ اس کا عادی بن گیا اور اب کسی طرح اس سے چھٹکارا حاصل نہیں ہورہا تھا۔
دانش میرا یونیورسٹی کا دوست تھا۔ سرخ سفید رنگت، خوش اخلاق اور کافی ہنس مکھ بندہ تھا۔ ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھتا تھا۔ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا، اس لئے بڑے لاڈ اور پیار سے پلا تھا۔ تاہم والد کی ریٹائرمنٹ کے بعد تعلیمی ذمہ داریوں کے ساتھ معاشی ذمہ داری اٹھانے کا دباؤ بھی بھائیوں کی طرف سے بڑھنے لگا تھا۔ جب تک ماں زندہ تھی تو اس کو کسی ذمہ داری کا احساس نہیں تھا، کیونکہ وہ اس کے سارے تعلیمی اخراجات اور جیب خرچ دیتی تھی۔ ماں کی وفات کے بعد بھائیوں کا رویہ بدلا، تو خود سے ہی ذمہ داری کا احساس اسے ہونے لگا تھا۔ بھائیوں کے رویئے، تعلیمی کیرئیر اور معاشی دباؤ کے باعث وہ ہر وقت فکرمند رہنے لگا۔ ایک بار مجھ سے بھی اس کا اظہار کیا، کہ یار کدھر نوکری ڈھونڈنے میں اس کی مدد کروں۔ ایک دو جگہ میں نے بات بھی کی، تاہم تجربہ نا ہونے کی وجہ سے اس کی نوکری نہیں لگی۔ اب تو وہ ہر وقت سوچوں میں مگن رہتا تھا۔ کلاسز سے بھی اکثر غائب ہوتا تھا۔ رات کو دیر تک جاگتا اور اکثر دن کو سویا رہتا۔ سٹڈی بھی کمزور پڑ گئ۔ اوپر سے جب امتحان سر پر آ گئے، تو امتحان کی تیاری بھی ندارد۔ ایسے میں ایک کلاس فیلو رئیس زادے جس کا نام کلیم تھا کو اس نے اپنا حال بتادیا، تاکہ وہ اس کی کچھ مدد کرسکے۔ تاہم بگڑے رئیس زادے نے مدد کے نام پر اسے غلط کمپنی دی۔ اور نشے کی لت میں مبتلا کردیا۔ پہلے پہل سیگریٹ کے تک بات محدود تھی۔ لیکن بات سیگریٹ پر کہاں رکنی تھی۔ جلد ہی وہ چرس کا بھی عادی بن گیا۔ نشے میں ہونے کے باعث وہ اکثر سویا رہتا۔ ایک دن وہ کلیم کے ساتھ بیٹھا تھا، کہ اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ دیکھا، جس میں چینی جیسے کوئی چیز پڑی تھی۔ دانش کے استفسار پر کلیم نے اس کو بتایا کہ یہ ایک برانڈڈ نشہ ہے، جس کو آئس کہتے ہیں۔ اس کو پینے کے بعد جسم میں بے پناہ قوت محسوس ہوتی ہیں، دماغ بہت زیادہ ایکٹیو ہوجاتا ہے اور نیند جسم سے کوسوں دور چلی جاتی ہے۔ دانش کو تو یہ چاہیے تھا، اس نے بھی پینے کی خواہش کی۔ اور پہلی دفعہ پینے کے بعد اسے واقعی اپنا جسم غموں سے دور بہت ہلکا محسوس ہوا۔ اسے اپنا آپ ایک قوی شخص نظر آنے لگا تھا۔ اسے لگا جیسے کسی نے اس کے دماغ سے ساری پرانی میموری ڈیلیٹ کردی ہے اور اس کا پورا ڈیٹا ریفریش ہوا ہو۔ یہ خیالی کیفیت تب تک تھی، جب تک آئس کا اثر اس کے جسم میں تھا۔ نشتہ اترنے کے بعد اسے سب کچھ اہنے پرانے ڈگر پر لگا۔ اور جسم اور دماغ کی ساری توانائی ہوائی محسوس ہوئی تو کلیم سے دوبارہ سے نشے کی خواہش کا اظہا کیا۔ دوبارہ نشہ چڑھایا، تو تھوڑی بہت پہلے والے کیفیات واپس لوٹ آئے، تاہم یہ کیفیت اب زیادہ دیر تک نہیں رکنی والی تھی۔ اسی طرح اب آہستہ آہستہ دانش کو آئس کی لت بھی پڑ گئ۔ طبیعت میں چڑچڑا پن آگیا، ہر کسی سے لڑنا جھگڑنا شروع ہوگیا تھا، بات بات پہ غصہ اور مار کٹائی پر اتر آتا تھا۔ ہر وقت ہشاش بشاش رہنے والا دانش اب ہر وقت مرجھایا مرجھایا سا رہتا۔ میری کوشش رہتی کہ کسی طرح دانش کو (جبکہ میرے خیال میں وہ صرف سیگریٹ پیتا تھا) اس لت سے چھٹکارا دلاسکوں۔ مجھے کیا پتہ تھا، کہ وہ سیگریٹ کی عادت سے بہت اوپر جاچکا ہے۔
میری مسلسل کوششوں سے اس نے کسی نا کسی طرح ایم ایس سی کلیئر کردیا۔ تاہم اب تعلیمی سلسلہ تو ختم ہو گیا تھا۔ آگے سے اسے نوکری بھی ڈھونڈنی تھی۔ تاہم یہ کام اس کی نشے کی لت کے ساتھ ناممکن تھا، بھلا ایک نشئی آدمی کو کون نوکری پہ رکھتا ہے۔ نتیجتاً اس نے نشے کی خواہش پوری کرنے کے لئے گھر سے ہی چھوٹی موٹی چوریاں کرنی شروع کر دیے۔ والد صاحب کو ان کے عادات کا پتہ چلا، تو اس نے بہتیرے کوشش کی۔ کہ اس کو صحیح راستے پر لے آئے۔ تاہم اب وہ اس سٹیج پر پہنچ چکا تھا، جہاں اس پر کوئی نصیحت اثر کیا کرتا الٹا نصیحت کرنے والے کو باتیں سنانے لگتا۔ بھائیوں نے چوری چکاری کی عادت پر پہلے ہی اس سے قطع تعلق کرلیا تھا۔ والد نے بھی اس پر جو تھوڑا بہت جیب خرچ دیتا تھا بند کر دیا۔ تنگ آکر دانش اب باہر لوگوں سے پیسے مانگنے لگا، تاہم اس کی یہ عادت کب تک چھپی رہتی۔ لوگوں نے بھی اب اس کو پیسے دینے بند کردئیے تھے۔ غلط عادات اور آئس کی لت پوری کرنے کے لئے اب دانش باہر چوریاں کرنے لگا تھا۔ اور آخر ایک دن جب وہ ایک دکان سے موبائل چوری کر رہا تھا، کہ دکاندار نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ پولیس کو بلا کے دانش کو حوالات لے جایا گیا۔ والد صاحب کو پتہ چلا، تو اس نے تھانے جاکر اپنے پرانے سرکاری تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے دانش کی ضمانت کی، تھانے کا ایس ایچ او جو ایک خاندانی، درد دل رکھنے والا ایماندار آدمی تھا، اس نے دانش کے والد کو اسے گھر لے جانے کی بجائے وہاں پر حال ہی میں منشیات کی علاج کے لئے بننے والے ایک قریبی رفاحی ہسپتال میں داخل کرنے کا مشورہ دیا۔ والد کی رضامندی سے ایس ایچ او نے تھانے پر ہی ہسپتال کی گاڑی بلائی، اور دانش کو حوالات سے سیدھا علاج کے لئے ہسپتال لے جایا گیا۔
آج جبکہ تقریبآ 4 ہفتوں سے دانش کا علاج جاری تھا، اپنے ماضی پر نادم اور افسوس کر رہا تھا، اور اپنے مستقبل کے بارے میں اچھے امیدوں کی تمنا کر رہا تھا، ہسپتال کے مالک نے ڈاکٹر کی تجویز پر علاج کے بعد جو کہ اب صرف ایک مہینہ اور رہ گیا تھا، دانش کو ہسپتال ہی میں اپنے ساتھ نوکری پر رکھنے کی حامی بھر دی تھی، اور یوں چند رحم دل انسانوں کی ہمدردی اور خدا ترسی نے معاشرے پر بوجھ بننے والے ایک تعلیم یافتہ انسان کو دوبارہ نارمل اور خوش حال زندگی گزارنے کے قابل بنا دیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں