طلاق کا بڑھتا رجحان 470

طلاق کا بڑھتا رجحان

تحریر: سحر عارف سلہری
ماں بیٹی کو دلہن بنے دیکھ خوشی سے رو رہی تھی۔ باپ اور بھائی دل ہی دل میں بہن کی نئی زندگی میں اس کے بسنے کی دعائیں کررہے تھے۔ ماں نے بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے نصیحت کی کہ اپنا گھر ہمیشہ بسا کر رکھنا۔ کسی کی باتوں میں آکر سسرال میں لڑائی جھگڑے نا کرنا۔ کچھ بھی ہو جائے پر اپنا گھر چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹوٹنے نا دینا کیونکہ یہ معاشرہ اور اس میں بسنے والے لوگ طلاق یافتہ عورت کو جینے نہیں دیتے۔ ” طلاق” لفظ شادی شدہ زندگیوں میں کہر مچا دیتا ہے۔ جس کا لغوی معنی ہی “ترک کردینا” ہے۔ جب میاں بیوی اپنی شادی شدہ زندگی میں ہار جاتے ہیں یا یوں کہوں کہ جب ان میں ایک دوسرے کی غلطیوں کے لیے قوت برداشت ختم ہوجاتی ہے تو پھر ان کا پالا طلاق جیسی بیماری جسے ہمارے معاشرے میں گالی کہا جاتا ہے اس سے پڑتا ہے۔ بد قسمتی سے آج دنیا میں طلاق کی شرح میں 80 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ جہاں دنیا اس کی لپیٹ میں آئی ہے ٹھیک ویسے ہی مسلم ممالک بھی اس سے اچھے خاصے متاثر ہوئے ہیں۔ پاکستان میں بھی طلاق کا رجحان کافی حد تک بڑھ چکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سن 2000 سے قبل امریکہ اور یورپی ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں طلاق کی شرح نا ہونے کے برابر تھی۔ مگر آج پاکستان میں طلاق کی شرح میں 60 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان کی کئی وجوہات سامنے آئیں ہیں۔ جب میاں بیوی کے درمیان ایک دوسرے کے لیے غلط فہمیاں پیدا ہوجائیں اور وہ انھیں دور کرنے اور ایک دوسرے کی مسائل سننے سے پہلے خود ہی سے چیزیں اخذ کرنے لگیں تو وہ بھی طلاق کی طرف چل پڑتے ہیں۔ پھر جب ماں باپ بچوں کی مرضی کے بغیر ان کی زبردستی شادیاں کروا کر انھیں ان چاہے رشتے میں ڈالتے ہیں تو اس طرح سے کچھ شادیاں ناکام ہونے کا باعث بنتے ہیں۔ آج کل کا نوجوان اپنی ضد اور انا کا پکا ہوتا ہے وہ اپنی انا کو کبھی ختم نہیں ہونے دیتا اور پھر دو خاندانوں کے آپس کے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں۔ جب ہمارا اسلام مرد اور عورت دونوں کو پسند کی شادی کا حق دیتا ہے تو وہیں ماں باپ کو بھی یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ بچوں کو ان کے حق سے محروم نا رکھیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئی روزگاری بھی طلاق کا سبب بن رہی ہے۔ بےروزگاری کے وجہ سے مرد جب اپنے بچوں کے اخراجات اٹھانے کے قابل نہیں رہتا وہیں وہ بیوی کو بھی اس کے نان و نفع سے محروم رکھتا ہے جس سے گھریلوں پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اور معاملہ طلاق تک جا پہنچتا ہے۔ پھر رہی سہی کسر ہمارے ہاں ڈراموں اور فلموں نے پوری کردی ہے۔ کیونکہ ہم سب اس بات سے با خوبی واقف ہیں کہ ہمارے ٹی وی سکرینز پر چلنے والے 80 فیصد ڈراموں میں ساس بہو کے لڑائی جھگڑے، میاں بیوی کا ایک دوسرے پہ شک کرنا، ایک دوسرے پر بدکرداری کے الزامات لگانا اور پھر دونوں میں طلاق ہوجانا بس یہی کچھ دیکھایا جاتا ہے۔ ہمارا تو دین کہتا ہے کہ اللّٰہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے پر افسوس سے کہنا پڑتا ہے آج ہمارا ہی معاشرہ سب سے زیادہ طلاق کی زد میں آچکا ہے۔
ایک موقع پر رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے فرمایا: “اے معاذ! روئے زمین پر اللّٰہ تعالٰی نے کوئی ایسی چیز پیدا نہیں فرمائی جو غلام آزاد کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہو اور روئے زمین پر کوئی ایسی چیز پیدا نہیں فرمائی جو اس کے نزدیک طلاق سے زیادہ ناپسندیدہ ہو”۔ حدیث نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہے: ” جو عورت بلاوجہ شوہر سے خلع لے وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گی” (ترمذی)۔ پھر آتے ہیں وہ لوگ جو میاں بیوی کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے شک ڈالتے ہیں اور ان میں جدائی ڈالوتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اس شخص کا ہم سے کوئی تعلق نہیں جو عورت کو اس کے شوہر کے خلاف اور غلام کو اس کے آقا کے خلاف ورغلائے” (ابوداؤد)۔ اس لیے آج طلاق کی اس قدر بڑھتی ہوئی شرح کو دیکھتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں بلاجواز کی طلاق کے روک تھام اور اس کی اسلام میں ناپسندیدگی کے حوالے سے اپنے لوگوں میں صحیح شعور پیدا کریں۔ اپنے نوجوانوں کو نکاح کی اہمیت کے بارے میں بتائیں اور انھیں یہ آگاہی دیں کہ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر یا ڈراموں اور فلموں کے دیکھا دیکھی اپنی ازدواجی زندگی کو طلاق تک لے جانا سراسر بےوقوفی ہے۔ ایک تو انسان اللّٰہ کا سب سے ناپسندیدہ کام کرتا ہے اور دوسرا جب طلاق میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے تو وہ پھر دو خاندانوں کے آپس کے تعلقات کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ اس حوالے سے گورنمنٹ کو چاہیے کہ کچھ ایسے اداروں کا قیام عمل میں لائیں جہاں شادی شدہ جوڑوں کے لیے ان کی ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے بھرپور آگاہی کا بندوست کیا جائے تاکہ ہمارا معاشرہ اور ہمارا ملک جلد از جلد طلاق کی بڑھتی شرح پر قابو پاسکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

طلاق کا بڑھتا رجحان” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں