آج کے کالمزبین الاقوامیبین الاقوامی کالمزفیچر کالمزکالمز

قول کے آئینے میں فعل کا چہرہ

تحریر: جویریہ اسد پی این نیوز ایچ ڈی

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ انسان کی اصل پہچان اس کے اعمال سے ہوتی ہے، نہ کہ اس کے بلند بانگ دعوؤں یا خوب صورت الفاظ سے۔ زبان سے ادا کی گئی باتیں اگر کردار کا ساتھ نہ دیں تو وہ محض آواز بن کر رہ جاتی ہیں۔ کوئی شخص خواہ کتنا ہی بڑا عالم، دانشور یا اعلیٰ تعلیم یافتہ کیوں نہ ہو، اگر وہ اخلاق، شائستگی اور انسانی حساسیت سے عاری ہے تو اس کی ساری تعلیم بے روح اور بے مقصد ہو جاتی ہے۔

حقیقی علم وہ ہے جو انسان کے اندر عاجزی پیدا کرے، اس کے رویّے میں نرمی اور اس کے دل میں خوفِ خدا پیدا کرے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
“علم بلا عمل جنون ہے، اور عمل بلا علم فضول محنت۔”
یعنی علم کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ انسان کے عمل میں کتنا ڈھلتا ہے۔

قرآنِ کریم میں بھی واضح طور پر اس تضاد کی مذمت کی گئی ہے:
“اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو خود نہیں کرتے؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو۔”
(سورۃ الصف: 2–3)

یہ آیات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ قول و فعل کا تضاد صرف اخلاقی کمزوری نہیں بلکہ اللہ کی ناراضی کا سبب بھی بنتا ہے۔

اور جب کوئی شخص خود کو مذہبی عالم یا دینی رہنما کہتا ہے تو اس پر ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ لوگ ایسے افراد کی طرف صرف سننے کے لیے نہیں بلکہ دیکھنے کے لیے بھی دیکھتے ہیں۔ ان کے اعمال دین کی عملی تصویر بن جاتے ہیں۔ حضرت علیؓ کا قول ہے:
“لوگ تمہیں تمہاری زبان سے نہیں، تمہارے عمل سے پہچانتے ہیں۔”

اگر دین زبان پر ہو مگر کردار میں اس کی جھلک نہ ہو، تو یہ رویّہ منافقت کہلاتا ہے۔ ایسا شخص علم اور مذہب کو محض شہرت، توجہ اور اثر و رسوخ کے لیے استعمال کرتا ہے، اور خود کو ایک مقدس لبادے میں چھپا لیتا ہے۔ مولانا رومؒ اس کیفیت کو یوں بیان کرتے ہیں:

زبان سے کچھ، عمل سے کچھ
یہی تو ہے دلوں کی ہار

اور ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
علم کز تو تو را نہ سازد مرد
آن جہل است، نقشِ دفتر مرد
یعنی وہ علم جو تمہیں بہتر انسان نہ بنائے، دراصل جہالت ہی کی ایک شکل ہے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ اخلاص کو شور کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سچائی خاموشی سے دلوں میں اترتی ہے اور کردار خود اپنی گواہی دے دیتا ہے۔ جو لوگ واقعی علم اور دین کے امین ہوتے ہیں، وہ وعظ سے زیادہ اپنے عمل سے اثر چھوڑتے ہیں۔

آخرکار لوگ ہمارے الفاظ نہیں، ہمارے رویّے یاد رکھتے ہیں۔ کیونکہ عمل ہی وہ زبان ہے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتی.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: مواد محفوظ ہے