#عدنان_تابش
#قسط_اول
بوجھل قدموں کے ساتھ گھر سے روانگی ہوئی۔ دس مہینے گھر پر رکنے کے بعد عید سے صرف دس دن پہلے کمپنی کا بلاوا آگیا، کہ براستہ مالدیپ آپ کی واپسی ہے۔ ۔ ۔ پشتو کہاوت ہے، کہتے ہیں کہ مرنا بہت مشکل کام ہے، لیکن مرنے والے کی مجبوری ہوتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ سعودی عرب کے لئے پاکستان سے براہ راست پروازیں بمد ہیں، اور اس کے لئے پہلے کسی تیسرے ملک میں 14 گزار کے پھر سعودی عرب چلا جاسکتا ہے، اس لئے کمپنی کی طرف سے ایک نسبتاً کم خرچ ملک مالدیپ کا انتخاب ہوا۔ ۔ ۔ ۔ مرتے کیا نہ کرتے، اپنا رخت سفر باندھا، اور پشاور کی طرف چل نکلے، جہاں پر اور 5 ساتھی انتظار کر رہے تھے، چونکہ ہماری فلائٹ امارات ائرلائنز لاہور سے براستہ دبئ مالدیپ کے دارالحکومت “مالے” کی لئے تھی۔ ۔ ۔ ۔۔ اس لئے سب ساتھیوں کے مشورے سے لاہور ائرپورٹ کے لئے پشاور سے مختصر سی بارگیننگ کے بعد ہائی ایس کو 23 ہزار روپے میں بک کیا۔ ۔ ۔
پشاور لاہور موٹروے کے ذریعے تقریبا 6 گھنٹے میں ہم لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ پہنچ گئے۔ شام کا وقت تھا، ائرپورٹ لاؤنج سے باہر کیفے میں کھانا کھایا، جو بہترین اور مناسب قیمت کا تھا۔ تقریباً رات دس بجے ہمارا ایجنٹ بھی لاہو ائرپورٹ آگیا، جس نے سب کے لئے ٹکٹ، خروج وعودہ اور ہوٹل واؤچر پرنٹ کئے تھے، یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ہم کمپنی کے ٹوٹل 23 بندے اس فلائٹ سے جا رہے تھے۔ ایجنٹ اعظم محمود نے سب کو سفر کے بارے میں بریف کیا، جس کے بعد اللہ کا نام لے کے ہم ڈیپارچر لاؤنج میں داخل ہوگئے، سیکیورٹی چیک اور بورڈنگ کے بعد جیسے ہی ہم سب ویٹنگ لاونج آگئے، مجھے لگا، جیسے ہم پرانے انارکلی بازار میں داخل ہوگئے، آٹھ دس بندے ہمارے ارد گرد منڈلانے لگے، کوئی اپنے کیفے میں کھانے کی دعوت دے رہا تھا، کسی کے پاس اچھی سینڈوچ تھی، کوئی چائے کا بلاوا دے رہا تھا، تو کسی کے پاس تو سیگریٹ نوشی کے لئے بھی جگہ دستیاب تھی، جب ان کو پتہ چل گیا، کہ کوئی بھی یہاں پر کچھ لینے والا نہیں، تو وہ آہستہ آہستہ وہاں سے کھسک گئے۔ تاہم بعد میں بھی گاہے بگاہے وہاں آتے رہے اور آخرکار ایک لڑکے کو دو تین سینڈوچ اور چائے کے بدلے ساڑھے تین ہزار کا چونا لگا کے ہی گئے۔ ۔ ۔ ۔ لاہور ائرپورٹ کے ویٹنگ لاؤنج میں اس طرح کا رویہ کافی دلبرداشتہ کرنے والا تھا، کھانے والوں کی طرح کھلانے والوں کی بھی کوئی عزت ہوتی ہے، ایسا نہیں کہ وہ خود سے لوگوں کے منہ میں کھانا ٹھونسنے پر تُل جائے، اور کھانے کے بعد سو روپے والی چیز پندرہ سو کا بتا دیں۔۔۔۔ خیر جو ہوا گزر گیا، لیکن مالدیپ پہنچ کے پاکستان سیٹیزن پورٹل پر اس کے خلاف ڈی جی سول ایوی ایشن اتھارٹی کو کمپلینٹ بھیج دیا۔ ۔ ۔ ۔ جس نے لاہور ائرپورٹ کے چیف کو فارورڈ کردیا، جس نے اس مسئلے کو حل کرنے کی یقین دہانی بھی کی، ساتھ میں مجھے اس بارے اپڈیٹ کرنے کی حامی بھی بھرلی، ابھی کچھ دن پہلے ہی ان کا ریپلائے آگیا، ساتھ میں ایک فائل لپ کی گئی تھی، جس کے مطابق لاہور ایئرپورٹ پر سارے کیفے والوں کو وارننگ لیٹر جاری کردیا تھا، اور دوبارہ اس طرح کرنے کی صورت میں بھاری جرمانہ عائد کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ (شکریہ سیٹیزن پورٹل جس کے ذریعے سے اب پاکستان کے کسی بھی محکمے تک رسائی یا اس کے خلاف شکایت موبائل کی بورڈ کی دوری پر ہے) ۔ ۔ ۔ ۔
لاہور ایئرپورٹ سے ٹھیک وقت پر اڑان بھرنے کے بعد ہم تقریباً صبح کے 6 بجے دبئ ائرپورٹ پہنچ گئے۔ دبئ ائرپورٹ سے ہماری کنکٹنگ فلائٹ مالدیپ کے دارالحکومت مالے کے لئے تھی۔ تو سیدھا جہاز سے اترنے کے بعد کوریڈور سے ہوتے ہوئی ٹرانزٹ لاؤنج میں اگلی فلائٹ کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ ۔ ۔ ۔ تھکاوٹ زیادہ تھی اس لئے ائرپورٹ کے آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ کر بلکہ لیٹ کر کچھ ہی دیر میں نیند آگئی۔ ۔ ۔۔ تب جاگ گئے جب اگلی فلائٹ کے لئے اعلان ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کوویڈ 19 کی وجہ سے ساری دنیا کے ممالک اپنے ملک آمد پر مختلف قسم کے ہیلتھ تدابیر اختیار کر رہے ہیں، مالدیپ کی طرف سے پی سی آر اور ان کے امائیگریشن اینڈ پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ہیلتھ ڈیکلریشن کے لئے ایک سوالنامہ فلائٹ سے پہلے پُر کرنا پڑتا ہے، جسے عام طور پر “IMUGA” کے مختصر نام سے پکارا جاتا ہے، جو ڈیٹا فیڈ ہونے کے بعد ایک “کیو آر کوڈ” کی صورت میں آجاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہم میں سے کسی کو بھی اس ڈیکلریشن کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھی، جبکہ ایجنٹ نے ہم میں سے صرف 10 بندوں کو یہ فارم فل کرکے دیا ہوا تھا، بدقسمتی سے ٹائم کم تھا، اور باقی 13 لڑکوں کے لئے یہ فارم پر کرنا ضروری تھا۔ تاہم ائرلائن والوں کی پھرتی اور مدد سے الحمدللہ سب بندوں کی ہیلتھ ڈیکلریشن فارم بروقت پُر کر دیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مالدیپ کے بارے میں بہت پہلے معاشرتی علوم کے کتاب میں سنا تھا، کہ یہ اسلامی ملک ہے، جو سینکڑوں جزائر پر مشتمل ہیں، ” مونگے کے چھٹانوں” کے لئے خصوصاً مشہور ہے، اور اس کی سطح سمندر سے اونچائی صرف ایک میٹر ہے، تو باجود ذہن میں ہزار خاکے بنانے کے یہ بات سمجھ نہیں آرہی تھی، کہ سطح سمندر سے صرف ایک میٹر کی بلندی پر ایک مکمل ملک کا وجود کس طرح سے ممکن ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ہوائی جہاز میں بھی اسی بارے میں مسلسل سوچتا رہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ کیا ہوگا، کس طرح ملک ہوگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ بالآخر چار گھنٹے اور پندرہ منٹ کے سفر کے بعد ہم مالدیپ کے دارالحکومت مالے کے ویلانا انٹرنیشنل ائرپورٹ پہنچ گئے۔ ۔ ۔ ۔۔
سب سے پہلے جو عجیب اور دلچسپ بات مالے ایئرپورٹ کی یہ ہے، کہ سمندر ختم ہوتی ہی ایک چھوٹی سی سڑک اور اس کے بعد ائرپورٹ کا رن وے شروع ہوتا ہے، بڑا عجیب نظارہ تھا، کبھی ویڈیوز میں اس طرح کے مناظر دیکھتے تھے، آج پہلی دفعہ اس طرح کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بہت بڑی ائیرپورٹ تو نہیں، نہ ہی کسی ترقی یافتہ ملک کی طرح سجاوٹ اور بناوٹ ہے، تاہم یہاں کا عملہ چست اور خوش اخلاق ہے۔ ۔ ۔ ۔ کچھ ہی منٹوں میں امائیگریشن کاؤنٹر پر اپنے ڈاکیومنٹس دکھا کر ہماری انٹری ہوگئ،اور ہم ائیرپورٹ کے اندرونی احاطے سے باہر آگئے۔۔۔۔ دوسری بات یہ ہے، کہ یہ پورا ملک سمندر ہی پر واقع ہے، ائرپورٹ سے آپ صرف دارالحکومت مالے “MALE” اور دوسرے قریبی قصبے “ہولو مالے” “Hulhumale” تک سڑک پر جاتے ہیں، باقی آپ جدھر بھی جاتے ہیں، تو کشتی ہی واحد ذریعہ ہے، ( امیر لوگوں کے لئے ہیلی کاپٹر اور چھوٹے جہاز(Seaplane) بھی مل جاتے ہیں) ۔ اس کے علاوہ ڈومیسٹک فلائٹس بھی مختلف “اٹول” (جزیروں کے ایک چین کو اٹول “Atoll” کہتے ہیں) تک جاتے ہیں، لیکن آگے آپ کو اپنے جزیرے تک پہنچنے کے لئے پھر سے کشتی کی ضرورت پڑے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح رہے، کہ مالدیپ کے اکثر ڈومیسٹک ایئرپورٹس غیر آباد جزائر پر بنائے گئے ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے، کہ ان جزائر کا رقبہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے، کہ آبادی رکھنے والے جزائر پر ائرپورٹ کے لئے جگہ رکھنا تقریباً ناممکن ہے۔ ۔ ۔ ۔ علم میں اضافے کے لئے یہ بات بھی ضروری ہے، کہ مالدیپ میں چھوٹے بڑے ملا کے جزائر کی تعداد تقریباً 1200 تک ہیں، جس میں آبادی صرف 200 جزائر پر ہیں۔۔۔۔۔۔
ہم جس جزیرے پر جا رہے تھے، اس کا نام “الپ الپ اکلہاس AA .UKULHAS” تھا، ایجنٹ نے ایف 3 کاؤنٹر پر معلومات کا کہہ دیا تھا، ایف 3 کاؤنٹر پر گئے، تو اس کے مطابق سپیڈ بوٹ تقریباً 15 منٹ میں پہنچنے والی ہیں ۔۔ اور وہ آپ کو لے کر اپنے مطلوبہ ہوٹل تک پہنچا دے گی۔۔۔۔۔۔ کچھ ہی دیر میں نیوی سٹائل کی سپیڈ بوٹ ائرپورٹ کے ساتھ موجود جٹی پر پہنچ گئی۔