سماجی خدمت اور سیرت نبوی ﷺ
تحریر انجنیئر میاں زاہد خان
چیئرمین پاکستانی ویلفیئر کمیونٹی فاؤنڈیشن
جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی معاشرے میں رہنے والوں کے آپس کے حقوق بیان فرمائے ہیں، یہ حقوق دو نوعیت کے ہیں، پہلی نوعیت شخصی حقوق کی ہے جبکہ دوسری اجتماعی حقوق کی ہے۔ شخصی حقوق کا معنٰی یہ ہے کہ ایک شخص کا دوسرے شخص پر کیا حق ہے، یعنی ماں کا حق بچے پراور بچے کا حق ماں پر، میاں کا حق بیوی پر اور بیوی کا حق میاں پر، بھائی کا حق بہن پر اور بہن کا حق بھائی پر، اُستاد کا حق شاگرد پر اورشاگرد کا حق استاد پر، یہ شخصی حقوق ہیں جن کی تفصیلات رسول اللہؐ نے بیان فرمائی ہیں۔ اجتماعی حقوق کا معنٰی یہ ہے کہ معاشرے کا انسان پر کیا حق ہے، سوسائٹی کا جو مشترکہ حق انسان پر ہے اسے سماجی خدمت یا سوشل ورک کہتے ہیں۔ معاشرہ اجتماعی طور پر جو انسان سے تقاضا کرتا ہے اس تقاضے کو پورا کرنا سماجی خدمت کرنا کہلاتا ہے۔ اس پیمانے پر دیکھا جائے تو حضرات انبیاء کرام علیہم الصلواۃ والتسلیمات سے بڑھ کر اور کوئی سماجی خدمت گزار نہیں رہا اور پھر انبیاء میں سب سے بڑے سوشل ورکر جناب رسالت مآبؐ ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بالکل آغاز میں ہی آپؐ کا تعارف ایک سوشل ورکر کے طور پر سامنے آتا ہے، جب حضرت جبریل علیہ السلام غارِ حرا میں پہلی وحی لے کر آئے تو یہ حضورؐ کے لیے ایک اچانک بات تھی، آپؐ نے وحی تو قبول کر لی لیکن اِس غیر معمولی واقعہ کی وجہ سے آپؐ کی طبیعت پر بے پناہ بوجھ تھا۔ پہلی وحی کے مراحل سے گزر کر آنحضرتؐ گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ سے اِس تمام واقعہ کا ذکر کیا
حضرت خدیجہؓ بڑی سمجھ دار خاتون تھیں، حضورؐ نے گھر آ کر زوجہ محترمہ کو غارِ حرا کا یہ واقعہ سنایا اور ساتھ ہی پریشانی کا اظہار فرمایا جو کہ ایک طبعی اور فطری بات تھی، اس پر ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ نے پہلا ردِ عمل یہ ظاہر کیا، ’’واللّٰہ لا یخزیک اللّٰہ أبدًا‘‘ خدا کی قسم! آپ تسلی رکھیے اللہ تعالیٰ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا اس واقعے میں آپ کے لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ پھر حضرت خدیجہؓ نے اس کی وجہ بیان فرمائی ’’انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم و تقری الضیف و تعین علٰی نوائب الحق‘‘ کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس لیے ضائع نہیں ہونے دے گا کہ معاشرے میں آپ کی خدمات اور کارکردگی قابلِ تعریف و ستائش ہیں، آپ صلہ رحمی کرنے والے ہیں، رشتوں کو جوڑنے والے ہیں، ٹوٹے ہوئے رشتوں کو ملانے والے ہیں، بیواؤں اور لاوارث لوگوں کا بوجھ اٹھانے والے ہیں، محتاجوں کو کما کر دینے والے ہیں، مہمانوں کی مہمانداری کرنے والے ہیں اور لوگوں پر آنے والی مشکلات میں ان کی مدد کرنے والے ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ یاد رکھو! جو شخص کسی دوسرے مسلمان بھائی کی ضرورت کو پورا کرے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت کو پورا کرتا ہے، پھر فرمایا کہ جو شخص کسی مسلمان بھائی کی مشکل میں اس کے کام آئے، اللہ تعالیٰ اس کی اپنی مشکل آسان فرما دیتا ہے۔ پھر فرمایا، جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کے عیب پر پردہ ڈالتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب پر پردہ ڈالیں گے۔ اس موقع پر حضورؐ نے غیبت کی مذمت فرمائی کہ غیبت بری چیز ہے جبکہ قرآن کریم نے غیبت کو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانا قرار دیا ہے۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! اگر اس شخص میں وہ عیب ہو کیا تب بھی اس کا تذکرہ منع ہے؟ آپؐ نے فرمایا، اسی کا نام تو غیبت ہے۔ ایک آدمی میں کوئی عیب ہو اور آپ بلا ضرورت اس کا تذکرہ کریں، یہی تو غیبت ہے۔ لیکن اگر آپ کسی آدمی کے ایسے عیب کا تذکرہ کریں گے جو اس میں نہیں ہے، یہ تو در بہتان ہوجاتا ہے۔