اگر معاشرے کے تمام افراد آپس میں محبت، اخوت اور بھائی چارے کے ساتھ رہیں تو معاشرہ جنت کا نمونہ نظر آتا ہے۔اگر اسی معاشرے کے چند افراد برائیوں میں مبتلا ہو جائیں تو پورا معاشرہ جہنم کدہ بن جاتا ہے۔ کیونکہ ایک مچھلی سارے تلاب کو گندا کر دیتی ہے۔ ان لوگوں کی گندگی کی وجہ سے پورا معاشرہ بگڑ جاتا ہے شریف اور عزت دار شخص ذلیل ہو جاتا ہے۔
آج ہمارا معاشرہ مختلف معاشرتی برائیوں میں مبتلا ہے۔ ان برائیوں کی وجہ سے پورا معاشرہ پریشانیوں کا شکار ہے، کیونکہ گناہوں کی وجہ سے اللہ کی طرف سے بھی فیصلے پریشانیوں اور مصیبتوں کے آتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں سود،رشوت خوری،سفارش،جھوٹ،ملاوٹ،تعصب، اقربا پروری،خیانت اور دیگر سماجی برائیاں عام پائی جاتی ہیں۔
سود بہت بڑا گناہ ہے۔ یہ برائی زمانہ جاہلیت میں عربوں میں پائی جاتی تھی۔ آج ہمارا معاشرہ بھی اسی برائی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ قرآن پاک نے سختی سے اس فعل سے منع کیا ہے۔ارشاد خداوندی ہے “اے ایمان والو! سود نہ کھاؤ”.
رشوت خوری بھی ہمارے معاشرے میں بہت عام ہو چکی ہے۔ اس نے معاشرے کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔کسی محکمے میں بھی چلے جائیں رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا۔ جائز کام کروانے اور اپنا حق لینے کے لیے بھی رشوت دینا پڑتی ہے۔حالاں کہ رشوت لینے اور دینے والے دونوں کے لیے وعید ہے، لیکن پھر بھی اس فعل بد سے نہیں بچتے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں”۔
غیبت اور چغل خوری بھی ایک معاشرتی بیماری بن چکی ہے ۔ غیبت سے مراد کسی شخص کی پیٹھ پیچھے اس کے بارے میں
ایسی بات کہنا کہ اگر وہی بات اس شخص کے سامنے کی جاتی تو اسے ناگوار گزرتی ۔ آج مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کی برائی بیان کرتا ہے اور اس کے عیب لوگوں پر ظاہر کرتا ہے۔
حدیث کا مفہوم ہے ‘جو کوئی کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے تو اللّٰہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔
اس لیے ہمیں غیبت اور چغل خوری سے پرہیز کرنا چاہیے لیکن آج ہماری محفلیں غیبت سے گرم ہوتی ہیں۔جہاں چند حضرات اکٹھے ہو جائیں وہ غیبت سے پرہیز نہیں کرتے۔
ملاوٹ بھی ان برائیوں میں سے ایک ہے۔ اچھی چیزوں میں خراب چیزوں کے ذریعے ملاوٹ کی جاتی ہے۔اس طرح انسانی جانوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔کھانے کے لیے کوئی بھی چیز خریدیں اس میں ملاوٹ نظر آ تی ہے۔دودھ میں پانی کی ملاوٹ کرتے ہیں۔اسی طرح تمام مصالحہ جات میں ملاوٹ کرتے ہیں۔
حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
“ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں”
جھوٹ معاشرے کی سب سے بڑی برائی ہے جو عام پائی جاتی ہے۔ ہم اپنے کام جھوٹ بول کر
کرواتے ہیں۔ناحق گواہی دینے سے گریز نہیں کرتے۔ اپنے فائدے کے لیے جھوٹی قسمیں اٹھا لیتے ہیں۔ قرآن پاک میں جھوٹ بولنے والوں پر لعنت کی گئی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
لعنة الله على الكاذبين (آل عمران)
“جھوٹوں پر الله کی لعنت“
جھوٹ بولنا منافقین کا شعار ہے۔ مومن کے بارے میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مومن جھوٹا نہیں ہوسکتا۔جب مسلمان جھوٹ بولتا ہے تو رحمت کے فرشتے اس سے دور چلے جاتے ہیں۔
گداگری بھی اک سماجی برائی بن چکی ہے۔ آج کل بھیک مانگنا ایک پیشہ بن چکا ہے۔ پیشہ ور بھکاریوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ریلوے اسٹیشنوں، بس سٹاپ پر تفریحی مقامات اور بازاروں میں ہر جگہ پیشہ ور بھکاری نظر آتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی بھیک مانگنے پرمجبور کرتے ہیں۔اسلام میں اس کی مذمت کی گئی ہے اور ہاتھ سے کھانے والوں کو الله کا دوست قرار دیا ہے۔
نبی اکرم (ص) کا
فرمان مبارک ہے:
“ہاتھ سے کمانے والا اللّہ کا دوست ہے”
لیکن بھیک مانگنے والے خوش حال ہونے کے باوجود اس برائی کو نہیں چھوڑتے۔
معاشرتی برائیوں میں ایک برائی ناپ تول میں کمی ہے عام دکاندار سے لے کر بڑے بڑے بیوپاری اس گناہ میں ملوث ہیں۔ کپڑوں کے تاجر بھی کپڑا پیمائش کرتے وقت پیمائش میں کمی کرتے ہیں۔ اس طرح اپنی حلال روزی میں حرام کی آمیزش کر لیتے ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے:
ولا تاكلو اموالكم بينكم بالباطل (البقرہ ۱۸۸)
“اور تم ناجائز طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ”.
حضرت شعیب علیہ اسلام کی قوم پر اللہ کا عذاب اس لیے آیا تھا کہ وہ ناپ تول میں کمی کرتے تھے۔
آج کل جہیز بھی ایک معاشرتی برائی بنتا جارہا ہے۔ جہیز دینا ایک رسم بن چکا ہے۔ لڑکے والے لڑکی والوں سے خود جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جو لڑکی کم جہیز لے کر آتی ہے سسرال میں اس کی عزت نہیں ہوتی، پوری زندگی اس کو طعنے دیتے ہیں۔ غریب لوگوں کی بچیاں جہیز کے انتظار میں بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ غریب والدین مجبوراً قرض اٹھا کر جہیز کا بندوبست کرتے ہیں اور پھر کئی سال تک قرض کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں۔ اکثر تو سود پر قرض اٹھاتے ہیں اور ساری عمر اس گناہ میں ملوث رہتے ہیں۔
مزکورہ بالا برائیوں کے علاوہ اور بھی بہت سی معاشرتی برائیاں ہمارے معاشرے میں جنم لے چکی ہیں۔ یہ برائیاں ہمارے معاشرے کو شب و روز گھن کی طرح کھا رہی ہیں۔ یہ برائیاں ہماری نظر میں بہت معمولی ہیں اور بظاہر کوئی بڑا نقصان سامنے نظر نہ آئے،لیکن ان کے پوشیدہ نقصانات ان گنت ہیں۔آج ان برائیوں کی وجہ صرف دین سے دوری ہے۔اللہ کے احکامات اور حضور اکرم ص کی سنت کو چھوڑ دیا ۔ جن دلوں سے اللّٰہ کی محبت ، اللّٰہ کا خوف اور آخرت کی یاد نکل جائے وہ غلط کاموں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور معاشرے کے بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔ اگر ہم سچے دل سے اللّٰہ اور اس کے محبوب رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن ہو جائیں تو یہ تمام برائیاں اپنی موت آپ مر جائیں گی۔
ایف سی بلوچستان کے جائز حقوق
ایف سی بلوچستان کو درج ذیل حقوق فوراً مہیا کیے جائیں
1 شہداء کے لواحقین میں بیوہ اور والدین میں برابر فنڈ تقسیم کیا جانا چاہیے
2ایف سی بلوچستان کو آرمی کے برابر مراعات ملنی چاہیئے
3 ایف سی کی گاڑیوں پکٹوں اور پوسٹوں پر جدید اقسام سے الارم لگائے جانے چاہیئے جو حملہ ہونے پر قریبی پوسٹوں ونگ اور ہیڈکوارٹر کو فورا آگاہ کرے تاکہ جلد سے جلد مدد فراہم کی جاسکے اور علاقے کو گیرے میں لے کر سرچ آپریشن فوری طور پر کیا جاسکے
4 سولجرز کو وقت کی نزاکت کے ساتھ جدید اسلحہ دیا جانا چاہیئے
5 نئے ریگروٹس کو ایک سال کے لیے پرامن علاقے میں تعینات کیا جائے
6 شہیدوں کے کوٹے پر 2 افراد کو ایف سی میں ملازمت دی جانی چاہیے یا ایک کو کسی مقامی ادارے میں نوکری ملنی چاہیئے
7 علاقے کے حالات کی نسبت سے سولجرز کو الاؤنس ملنے چاہیئے
8 گاڑی میں سموگ سسٹم ہونا چاہیے جوکہ حملہ ہوتے ہیں گاڑی کے اردگرد پھیل جائے تاکہ ہوکہ جوان حملہ کی سمت اور نوعیت کو سمجھ سکیں
9 ایف سی کی 100 ممبران پر مشتمل ایک ایسی ٹیم تشکیل دی جانی چاہیے جوکہ فون کال کے ذریعے سول لوگوں سے انفارمیشن حاصل کریں کیوں کہ بے شمال لوگ اداروں کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن کوئی ذریعہ نہ ملنے کی وجہ سے اطلاعات نہیں پہنچا سکتے
10 بلٹ پروف گاڑیاں فوراً فراہم کی جائیں
kindly send your article ” PaknewsPoint1@gmail.com ”
Best Regards,