Knowledge and public information 509

پی پی 38 سیالکوٹ میں انتخابی دنگل اور مسئلہ PTI ٹکٹ۔

کالم :- فرنٹ پیج
تحریر :- ظہیر اے چوہدری
عنوان :- پی پی 38 سیالکوٹ میں انتخابی دنگل
اور مسئلہ PTI ٹکٹ۔

گزشتہ دنوں پاکستان مسلم لیگ ن کے ایم پی اے چوہدری خوش اختر سبحانی صاحب رضائے الہٰی سے وفات پاچکے تھے۔ جسکی وجہ سے سیالکوٹ پی پی 38 کی نشست پہ ضمنی انتخاب منعقد ہونے جا رہا ہے۔ قبل از وقت نتیجہ اخذ کرنا تھوڑا مشکل ضرور ہے، کیونکہ کرکٹ میچ کی طرح الیکشنز میں آخری لمحے تک کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ماضی و موجودہ اوقات کے پیش نظر ایک تجزیہ کے مطابق پی پی 38 میں تقریباً کل آبادی 3 لاکھ 50 ہزار ہے، جن میں رجسٹرڈ ووٹ 2 لاکھ 9 ہزار ہیں۔ 1 لاکھ 20 ہزار مرد ووٹرز اور تقریباً 92 ہزار خواتین کے ووٹوں کی تعداد ہے۔ اگر ہم انتخابات 2018 پر جائیں تو امیدواران حلقہ کی پوزیشنز کچھ یوں رہیں۔
چوہدری خوش اختر سبحانی صاحب (PML n) نے 57617 ووٹ لیے اور کامیاب قرار پائے۔ سعید احمد بھلی صاحب PTI نے 40531 ووٹ لیے۔ چوہدری طاہر محمود ہندلی صاحب IND نے 12478 ووٹ لیے۔ محمد اسحاق صاحب TLP نے 7666 ووٹ لیے۔ باقی بھی آزاد امیدواران کے ٹوٹل ووٹ 2320 تھے۔ اب ہم اس گزرے ہوئے انتخاب کا تقابل ملک کی دو بڑی جماعتوں کے امیدواروں کے مابین کرتے ہیں۔ چونکہ کسی بھی ملک میں ٹو پارٹی سسٹم ہی چلتا ہے۔ سو جب کوئی تیسری پارٹی، ٹو پارٹی سسٹم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اسکی سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ ٹکٹ دینے کیلئے ایک صحیح امیدوار کا انتخاب کیسے کیا جائے؟ پارٹی میں مختلف قسم کے امیدوار پائے جاتے ہیں۔
جن میں پہلی قسم یہ ہے کہ کچھ امیدواروں نے اپنے لیے اور پارٹی کے لیے محنت کی ہوتی ہے۔ دوسری قسم کے امیدواروں نے محنت اور مناسب پیسا بھی لگایا ہوتا ہے۔ تیسری قسم کے امیدوار وہ ہوتے ہیں جو پہلے سے کسی پارٹی سے جیت کر یا ہار کر نئی پارٹی جوائن کر لیتے ہیں۔ اور چوتھی قسم کے امیدوار صرف و صرف پیسے کے بل بوتے پر پارٹی کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لہذا مذکورہ تمام امیدواران کا پریشر نئی پارٹی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم پہلی قسم کے امیدواروں پر تبصرہ کریں تو ایسے امیدوار غریب ہوتے ہیں، انتھک محنت سے وہ اپنا ذاتی ووٹ 5000 سے زیادہ نہیں بنا پاتے۔ دوسری قسم کے امیدوار اپنی محنت کے ساتھ ساتھ مناسب پیسہ بھی لگا لیتے ہیں، تاہم وہ بھی اپنا ذاتی ووٹ تقریباً 10000 تک ہی بنا پاتے ہیں۔ تیسری قسم کے امیدواروں کے پاس چونکہ تجربہ بھی ہوتا ہے اور کچھ پرانے دھڑوں کا ساتھ بھی، پس وہ 20000 تک ذاتی ووٹ بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، باقی کا ووٹ پارٹی کے لیڈر یا منشور کا ہوتا ہے، جو جیتنے میں مدد دیتا ہے یا جیت کے قریب لیکر جاتا ہے۔ ٹکٹ حاصل کرنے کے معاملے میں یہ تیسری قسم والے امیدوار چوتھی قسم کے امیر امیدوار کو کڑا مقابلہ ضرور دیتے ہیں۔
یقیناً ایسی صورتحال پی پی 38 میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں نظر آ رہی ہے۔ وریو خاندان اور ن لیگ کا ووٹ بینک سیالکوٹ کے دیگر حلقہ جات کی طرح پی پی 38 میں بھی ضرور ہے۔ لیکن آئیے ذرا ہم انتخابات 2018 کے تناظر میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد کو ایک مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں۔
ن لیگ کے ووٹوں کی تعداد 57617
غیر ن لیگ کے ووٹوں کی تعداد 62995
فرق 5378
میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی کو یہ زاویہ سمجھنا چاہیے کہ اس حلقے میں ن لیگ کے خلاف ووٹ 5378 کی برتری سے ہے۔ سو PTI اسی کو اپنی طاقت بنا کر پیش رفت کرے۔ اور اگر صرف ن لیگ اور پی ٹی آئی کے ووٹوں کا موازنہ کیا جائے تو پی ٹی آئی کے دو امیدواروں نے ٹوٹل ووٹ 53009 ووٹ لیے جو کہ ن لیگی امیدوار سے 4608 کی تعداد میں کم تھے۔ ماضی قریب این۔اے 75 ڈسکہ میں پی ٹی آئی اپنے دو امیدواروں کو یکجا کرنے میں تو کامیاب ہو گئی تھی تاہم پھر بھی وہ سیٹ نہیں جیت سکی، اور مزے کی بات یہ ہے کہ تقریباً دونوں پارٹیوں کی صورتحال ماضی کی طرح رہی۔ ن لیگ کا ووٹ بنک کم ہوا نہ پی ٹی آئی کا بڑھا۔
اب PP-38 میں کالم لکھنے تک PTI اپنے امیدواروں کو یکجا نہیں کر سکی، اور یہاں تو امیدوار بھی دو کی بجائے چار ہیں۔ اور چاروں تقریباً مذکورہ بالا اقسام کے مطابق پورا اتر رہے ہیں۔ اس حلقہ میں جٹ برادری اکثریت میں ہے، تاہم گجر، راجپوت، آرائیں و دیگر برادریاں بھی بالترتیب تعداد کے لحاظ سے پائی جاتی ہیں۔ لیکن جٹ برادری سے کوئی مضبوط امیدوار ابھی تک موزوں قرار نہیں پا رہا۔ 2008 کے انتخابات میں بھی دونوں گجر امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوا، جس میں پیپلز پارٹی سے چوہدری طاہر ہندلی صاحب نے نشست جیتی، جبکہ چوہدری خوش اختر سبحانی صاحب ق لیگ کے ٹکٹ سے یہ نشست ہار گئے تھے۔
ٹکٹ تقسیم کرنے کے معاملے میں دوسری پارٹیز کی طرح ن لیگ کا بھی سیدھا سیدھا فارمولا ہے کہ ٹکٹ چوہدری صاحب کو دو، وہ نہ ہو تو اسکے بیٹے، بیٹی یا بھائی کو، ٹکٹ راجہ صاحب کو دو، وہ نہ ہوا تو پھر پوت کو۔ ٹکٹ شاہ صاحب کو دو، وہ نہ ہو تو شاہ زادے کو۔ ٹکٹ جادو گر کو دو اور اگر وہ بھی نہ ہو تو بچے جمہورے کو۔ پی ٹی آئی ایسے پیٹرن کو پسند تو نہیں کرتی لیکن اسکے بغیر پارٹی کی بقاء بھی مشکل میں پڑ جاتی ہے۔ اسی لیے ایسے تجربے کر رہی ہے کہ آنیوالے الیکشن تک جماعت کو اسطرح بنا لیا جائے کہ مزید تجربے نہ کرنا پڑیں۔ یہاں میں ایک مشورہ اپنے امیدواروں اور اپنے ووٹرز کو دینا چاہوں گا کہ کسی کے نظریہ کے ساتھ چلنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک کی بہتری کے لیے اگر لیڈرز اپنے نظریے میں لچک پیدا کر کہ کچھ تبدیلی کر لے تو ووٹرز کو پھر لیڈرز یا پارٹی کے ساتھ ہی چلنا چاہیے۔ نہ کہ اپنی برادری یا اپنی پسند دیکھنی چاہیے۔ ایک بات ضرور ہے کہ اگر وہ تبدیلی مسقبل میں ملک کو فائدہ نہ دے، بلکہ نقصان کا سبب بنے تو پھر ایسی تبدیلی واپس ہو جانی چاہیے۔ اگر لیڈر ایسا نہیں کرتا تو پھر ووٹرز کا حق ہے کہ وہ جدھر مرضی جائے۔ ابھی موجودہ صورتحال میں چوہدری سعید بھلی اور چوہدری طاہر ہندلی کے مضبوط امیدوار ہونے کے باوجود پی ٹی آئی ایک نیا رسک لے رہی ہے، جٹ برادری سے چوہدری قیصر اقبال بریار صاحب کو متعارف کروا رہی ہے، جو ضلع سیالکوٹ کے ایک بڑے کاروباری گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، موجودہ صدر چیمبر آف کامرس بھی ہیں۔ اور سابقہ ق لیگ سے بھی سیاسی تعلق رکھتے ہیں۔ بریار صاحب نے حالیہ خیالات کے اظہار میں یہ بھی کہا ہے کہ میں وزیراعظم عمران خان صاحب کی بزنس فرینڈلی پالیسیز سے بہت خوش ہوں اور پچھلے ایک سال سے اس کوشش میں ہوں کہ خانصاحب کی ٹیم کا حصہ بن کر بزنس پالیسیز کو مزید مضبوط کرنے میں اپنا ایک کلیدی کردار ادا کروں۔ تاہم انکو ٹکٹ دینے کے حوالے سے کچھ دوستوں نے ن لیگی امیدوار کو پیشگی مبارک بھی دے دی ہے۔ اس ضمن میں راقم پیشنگوئی سے ذرا اجتناب ہی کرتا ہے۔ تاہم میرا ماننا یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنا کوئی بھی امیدوار میدان میں لے آئے اور دو کام ضرور کرے، پہلا یہ کہ باقی تین امیدواروں کو کسی بھی حال میں اکھٹا کرے۔ اور وہ ایسے ہی کمپین کریں جیسے انہوں نے اپنے الیکشن کی کرنی تھی۔ دوسرا یہ کہ TLP کیساتھ اتحاد کو یقینی بنائے۔ یاد رہے کہ یہ دونوں کام مشکل ضرور ہیں لیکن ناممکن نہیں، اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر کیا ہوگا؟ پیشنگوئی کے لیے پھر بھی معذرت، لیکن ایک بات پکی ہے کہ نتیجہ پہلے جیسا ہر گز نہیں ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں