Cannabis in color Muhammad Amanatullah 259

مفاہمتی پالیسی محمد امانت اللہ

مفاہمتی پالیسی

محمد امانت اللہ

جنرل باجوہ 29 نومبر 2022 تک بری فوج کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہیں گے۔

یاد رہے کہ جنرل باجوہ پاکستان کی بری فوج کے دسویں سربراہ ہیں اور انہوں نے 26 نومبر 2016 کو فوج کی کمان سنبھالی تھی۔
انکی مدت ملازمت 2019 میں پوری ہو چکی تھی، سابق وزیراعظم عمران نے عدالتی حکم کے مطابق انکو دوبارہ اسی منصب پر فائز کیا۔

جنرل باجوہ 26 نومبر 2022 کو ریٹائر ہو جائیں گے۔

باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ھے آصف
زرداری نے وزیراعظم شہبازشریف کو مشورہ دیا ھے، مفاہمتی پالیسی پر عمل کرتے ہیں۔
جنرل باجوہ کو یقین دہانی کرائیں انکی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع کا ارادہ رکھتے ہیں۔

نجم سیٹھی نے کہا شہباز شریف مقتدر حلقوں کے سامنے لیٹ گئے ہیں، یہی وہ مناسب وقت تھا جب وہ لیٹ گئے تھے۔

مفاہمتی پالیسی کے تحت جب انکو یقین دہانی کرا دی جائے ہم اقتدار میں آ کر ایک سال کی توسیع کریں گے ، بدلے میں آپ دونوں پارٹیوں کو الیکشن میں کامیاب کرائیں۔

اس طرح عمران خان کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا، اگر نہیں کیا تو وہ اقتدار میں نہ صرف آئے گا بلکہ مقتدر حلقوں کے لیے پریشانیوں کا باعث بنے گا۔
دوسری طرف زرداری صاحب یہ چاہتے ہیں ٹی ٹی اسکینڈل کے تمام کیسز ختم کیے جائیں۔

پیپلزپارٹی یہ بھی چاہتی ھے جو معاہدہ طے پایا تھا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا اس پر ن لیگ مکمل طور پر عمل کرے۔
ن لیگ چاہتی ھے اگلے الیکشن میں کم از کم سادہ اکثریت سے انکی حکومت بنے۔

الیکشن کمیشن نے اس پر کام شروع کر دیا ھے، حلقہ بندیوں میں بڑے پیمانے میں تبدیلی کی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔
گھر کے پانچ افراد کے نام پانچ مختلف حلقوں میں ڈال دیے گئے ہیں۔
اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے سے محروم کر دیا گیا ھے یہ کہہ کر ان لوگوں کو ملکی سیاست کا کچھ علم نہیں ھے۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو بھی خیرباد کہہ دیا گیا ھے۔
الیکشن میں مکمل دھاندلی کا کامیاب منصوبہ بندی کر لی گئی ھے۔
کچھ اہل دانش تو ابھی سے فرما رہے ہیں عمران خان کو کتنی سیٹیں ملیں گیں وہ بھی انکے علم میں ھے۔

نواز شریف کا ریکارڈ ھے انہوں نے کبھی بھی کسی جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کی ھے۔
اس دفعہ حالات مختلف ہیں جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا مطلب حکومت یقینی طور پر عمران خان کو نہیں ملے گی۔

آصف زرداری صرف اپنے کیس ختم کروانے کی حد تک شہبازشریف کے ساتھ ہیں۔
ن لیگ کا ماضی اس بات کی گواہی دیتا ھے وقت پڑنے پر پیر پڑ جاتے ہیں اور کام نکلے پر مقصود چپراسی والا حال کرتے ہیں۔
مقتدرہ حلقے ایک طرف عمران خان سے خوفزدہ ہیں تو دوسری طرف ن لیگ کی عیاری اور مکاری سے بھی واقف ہیں۔
اقتدار کی رسہ کشی میں ملک اقتصادی طور پر مزید تباہی و بربادی کا شکار نہ ہو جائے۔

آئی ایس پی آر نے اپنے بیانیہ میں کہا تھا جنرل باجوہ صاحب مزید مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے ہیں۔
اگر ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے مفاہمت کی پیشکش کی تو کیا مقتدر حلقے قبول کریں گے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں