تحریر انجینیر میاں زاہد خان
چیرمین پی ڈبلیو سی ایف ویلفیئر فاؤنڈیشن
دنیا کی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اسی تیزی سے دنیا میں تبدیلیاں بھی رونما ہو رہی ہیں۔ ان تبدیلیوں کے فوائد اور نقصانات اپنی جگہ لیکن ان کی وجہ سے نئی اور پرانی نسل کے درمیان جنریشن گیپ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ اس جنریشن گیپ کی وجہ سے نئی نسل اور بزرگوں میں فاصلے کافی زیادہ ہو گئے ہیں۔ نیز نئی نسل تاریخ کی کتابوں سے بھی دور ہوتی جا رہی ہے۔
اگرچہ انٹرنیٹ پر تاریخ کے بارے میں بہت زیادہ مواد دستیاب ہے لیکن آج کا نوجوان تاریخ کو کم ہی پڑھتا ہے، لہٰذا ضرورت محسوس کی گئی کہ نئی نسل کئی آگاہی کے لیے قائد اعظم کی سالگرہ کے موقع پر ایسامضمون تحریر کیا جائے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ بانیِ پاکستان کو ’قائد اعظم‘ کا لقب کس نے دیا تھا۔ یہ لقب جن شخصیات نے دیا ان کی تفصیل یہاں پر مع حوالہ جات دی جا رہی ہے.
پاکستان کے ایک مستند انسائیکلو پیڈیا ’پاکستانیکا‘ ازسید قاسم محمود، چھٹا ایڈیشن ، نومبر 2008 ء ، الفیصل ناشران و تاجران کتب غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور صفحہ نمبر 889 کے مطابق، مولانا مظہر الدین نے محمد علی جناح کو پہلی بار ’قائد اعظم ‘ کا لقب دیا تھا۔ دسمبر 1937ء میں مولانا نے محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کو دہلی میں استقبالیہ دیا اور اپنے ادارے کی جانب سے سپاس نامہ پیش کیا۔ اس سپاس نامے میں جناح صاحب کو ’قائداعظم، فدائے ملک و ملت ، رہنمائے اور قائدِ ملت‘ جیسے خطابات سے نوازا گیا۔ اس کے بعد تو مولانا نے جناح صاحب کے لقب ’قائد اعظم‘ کی باقاعدہ تشہیر شروع کی۔
اسی انسائیکلوپیڈیا کے صفحہ نمبر 720 کے مطابق، دسمبر 1938ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ پٹنہ میں میاں فیروز الدین احمد نے ’قائد اعظم زندہ باد‘ کا نعرہ لگایا۔ اس کے بعد محمد علی جناح کا عوامی اور مقبول نام ’قائد اعظم‘ ہی ہو گیا۔
قائد اعظم کے لقب کے سلسلے میں مذکورہ انسائیکلو پیڈیا کے علاوہ تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان سے تعلق لکھی گئی تمام کتابوں میں مولانا مظہرالدین اور مولانا فیروز الدین کا نام ہی آتا ہے۔