Protocol 227

پروٹوکول

تحریر: ناصر عظیم خان ایڈووکیٹ

جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا، دیکھا جاۓ تو ہر سیاست دان سیاست ہی پروٹوکول کے لیے کرتا نظر آتا ہے اور حکومت میں آکر سب سے پہلا کام یہ کرتا ہے کہ اسے بڑی بڑی سرکاری گاڑیاں اور بمعہ سیکورٹی پروٹوکول مل جاۓ اور مشیروں اور وزیروں سمیت اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ بھی سیکورٹی کے حصار نظر آتے ہیں۔ سیکورٹی کے اور پروٹوکول کے مناظر جو اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں وہ ان کی جیب سے پیسہ خرچ نہیں ہو رہا ہوتا بلکہ یہ عوام کی ٹیکس کا پیسہ ہوتا ہے جس سے ان تمام لوگوں کو سیکورٹی اور پروٹوکول فراہم کی جاتی ہے۔ پچھلے دنوں وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب کی جانب سے ایک حکم صادر فرمایا گیا کہ چند وزراء کی اضافی سیکورٹی اور پروٹوکول اور اپوزیشن رہنماؤں کا بھی پروٹوکول واپس لے لیا جاۓ اور سیکورٹی اس کے پاس ضرور رہے جس کو سیکورٹی خطرات لاحق ہوں، اس حکم کے نافذالعمل ہوتے ہی چند وزراء کی جانب سے احتجاج دیکھنے کو ملا کہ ہمارے پاس تو پہلے ہی سیکورٹی کم تھی اور جو تھی وہ بھی واپس لے لی گئی ہے اور اپوزیشن رہنماؤں نے بھی میڈیا ٹاک کے ذریعے احتجاج کیا کہ ہمیں جان کے خطرات لاحق ہیں اگر ہمیں کچھ ہوگیا تو کیا ہوگا اور اس کا ذمہ دار کون ہوگا۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ یہ اپوزیشن رہنما کئی بار حکومت میں رہ چکے ہیں ان کے پاس دولت کی بھی کمی نہیں ہے اگر انہیں واقعی جان کے خطرات لاحق ہیں تو یہ اپنی ذاتی سیکورٹی کے پرائیوٹ گارڈز کیوں نہیں رکھ لیتے اپنے خرچ پر انہیں سرکار سے ہی کیوں سیکورٹی چاہیے کیوں عوام کے دیے ٹیکس سے ہی گارڈز اور پروٹوکول چاہیے اب بات کر لیتے ہیں حکومتی ارکان کی تو آپ نے عوام کو نیا پاکستان بنا کر دیا تھا اس نئے پاکستان میں ہر وزیر ، مشیر نے سائیکل پر دفتر جانا تھا، سیکورٹی کا رجحان ختم کرنا تھا، وزیراعظم ہاؤس، گورنر ہاؤس میں یونیورسٹی کے قیام کو عمل میں لانا تھا اب اگر نئے پاکستان کے خواب دیکھنے والے آپ کے قائد نے بالاخر حکم صادر فرما ہی دیا ے تو پھر احتجاج کیسا۔ الله تعالٰی ہم سب کو ہدایت کا راستہ دکھاۓ۔ آمین
سب سے پہلے پاکستان

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں