A few memories of the late Dr. Rashid Amjad in the 2021 yearbook of "Dialogue" 335

“مکالمہ” کے سالنامے 2021 میں ڈاکٹر رشید امجد مرحوم کے حوالے سے چند یادیں

پروفیسر جلیل عالی

بیادِ یارِ دیرینہ

رشید امجد سے میری شناسائی کا دورانیہ پچاس سالوں سے تجاوز کر چکا تھا۔ تیس ستمبر 1970 کو جب سی بی کالج میں بطور اردو لیکچرار میری ملازمت کا آغاز ہوا اس وقت رشید امجد شعبۂ اردو کے صدر تھے۔انہیں غالباً یہاں خدمات انجام دیتے ہوئے ڈیڑھ دو برس بیت چکے تھے۔یہ سخت نظریاتی آویزش کا زمانہ تھا۔ سارا ملک دائیں بائیں کی سہل، نام نہاد اور پاپولر تقسیم کا شکار ہو چکا تھا۔ یہ تو بہت بعد میں پتا چلا کہ مغربی سامراج نے روایت پرست لوگوں کے ہاتھوں میں اسلام اور مغرب پرست آزاد خیالوں کے ہاتھوں میں سوشلزم کا پرچم تھمائے رکھا۔ اور جو نزاع استحصالی قوتوں اور پسماندہ عوام کے درمیان ہونا چاہیے تھا اسے کمال حکمت عملی سے اسلام اور سوشلزم کا بے معنی تصادم بنائے رکھا۔
فلسفے کا طالب علم ہونے کے ناطے مجھے شروع سے ہی تخلیقی اذہان کا کسی سیاسی پارٹی کی سوچ میں مقید ہو جانا مناسب نہیں لگتا تھا۔ ان دنوں نظریاتی آویزش زوروں پر تھی اور ہمارے قلمکاروں کی اکثریت پیپلز پارٹی کی حامی تھی۔ رشید امجد بھی اسی رو میں بہہ رہے تھے۔ اقبال اور قائدِ اعظم کے افکار کو نگاہ میں رکھتے ہوئے مجھے اس نقطۂ نظر میں کچھ انتہا پسندی دکھائی دیتی تھی۔ اسی زمانے کی ایک غزل میں اپنے اس احساس کو میں نے یوں بیان کیا تھا۔
شہر کا حبس مٹانے کے بہانے عالی
ساتھ لے آئیں بیاباں کی ہوائیں کیا کیا
اس نزاعی فضا کے زیرِ اثر کالج کے اسٹاف روم میں ہمارے درمیان اکثر گرما گرم نظریاتی بحث چل پڑتی۔میں واہ میں قیام کے دوران ہر اتوار کو حلقہ اربابِ ذوق کے اجلاس میں شرکت کے لیے راولپنڈی آتا۔ نظریاتی آویزش سے نہ تو حلقے کی بحثیں محفوظ تھیں اور نہ حلقے کے اجلاس کے بعد شالیمار ریستوران کی نشستیں۔ مجھے یاد ہے ایک بار بحث کے دوران میں نے ایک صاحب سے جو بہت بڑے ماہرِ اشتراکیت سمجھے جاتے تھے،سوال کیا کہ انسان کے اندر اچھائی اور برائی کا شعور کہاں سے آیا ہے؟ انہون نے جواب دیا کہ اس کے بارے میں بھی کارل مارکس نے کچھ کہہ رکھا ہے مگر اس وقت میرے ذہن سے اتر گیا ہے۔ میں نے کہا کہ قرآن کی آیت کے مطابق انسان کو اچھائی برائی کا شعور وہبی طور پر عطا کیا گیا ہے۔اس پر ان کے منہ سے قرآن کے بارے کچھ ایسے نا زیبا الفاظ نکل گئے کہ جنہیں سن کر مظہر الاسلام نے جو موصوف سے بہت متاثر بھی تھے، آستینیں چڑھاتے ہوئے شدید غصے میں کہا کہ سوشلسٹ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم قرآن بارے ایسے الفاظ کے استعمال کی اجازت دیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کے کشیدہ حالات میں بھی نظریاتی اختلاف کے باوجود میرے اور رشید امجد کے آپسی تعلقات میں کوئی دراڑ نہ آئی۔
پھر 1972 میں میری شادی ہو گئی۔ بیگم سی بی کالج راولپنڈی کے شعبۂ نفسیات میں لیکچرار تھیں۔ میں واہ کینٹ کا سرکاری فلیٹ چھوڑ کر راولپنڈی آ گیا۔اور راولپنڈی سے روزانہ واہ کینٹ کالج آنے والے چھوٹے سے گروپ میں شامل ہو گیا۔ اب ہم چار دوست رشید امجد،مشتاق قمر،غلام سرور اور میں اکثر کالج آمد اور پنڈی واپسی کا سفر اکٹھے کرتے تھے۔ ان دنوں سیالکوٹ سے کیمل پور تک برہان ٹرانسپورٹ والوں کی لمبوترے بونٹ والی اکلوتی بس سروس چلتی تھی جو واہ کینٹ کے اندر سے گزرتی تھی۔ لاری کا لفظ شاید اسی ہیتِ کذائی والی بس کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ واپس پر کئی بار ہم بس میں سوئے سوئے صدر اترنے کی بجائے گنج منڈی اڈے میں پہنچ جاتے۔سردیوں میں بس کے شیشے بند ہونے کے باوجود یخ ہوا بس کے اندر گھسی چلی اتی۔ٹھنڈ سے بچاؤ کے لیے میں نے اور رشید امجد نے اکٹھے صدر بازار سے ایک ایک ڈفل خریدا۔جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔استعمال میں تو کم ہی آتا ہے مگر جب کبھی احتیاطاً سردیوں میں باہر نکالتے ہیں تو ان دنوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
میں نے ستر کی دہائی میں رشید امجد کی افسانہ نگاری پر ایک مختصر سا مضمون لکھا جو نوائے وقت کے ادبی صفحے میں شائع ہوا۔ مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ اس میں میرے بیان شدہ اس خیال کہ”رشید امجد کے بیشتر افسانے شعری تجربے سے جنم لیتے ہیں” کی تائید بعد کے کئی نقادوں کی تحریروں سے بھی ہوتی رہی۔ پتا چلا کہ وہ افسانہ نگاری سے پہلے نثری نظمیں بھی لکھتے رہے ہیں۔ اس اعتبار سے افسانوں میں شعری تجربے کی موجودگی ان کی اسی خصوصیت کا تسلسل ہو گا۔ رشید امجد کو زندگی اور کائنات کی اسراریت بہت ہانٹ کرتی تھی۔ ان کے بیشتر اچھے افسانے مسٹری اور سریت ہی کے گرد گھومتے ہیں۔ میں ان سے اکثر کہا کرتا تھا کہ سریت کا یہ منطقہ ہم دونوں میں مشترک دلچسپی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس منطقے کے نواح کے اشتراک کا ایک مظہر یہ بھی تھا کہ میرے چند مصرعوں کو تو ان کے کچھ افسانوں کے عنوانات بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ جیسے ایک افسانے کا عنوان ہے
“نہیں تعبیر کوئی”
جو میرے اس شعر کا ٹکڑا ہے کہ
ازل سے ایک بے منزل سفر میں ساتھ اپنے
کچھ ایسے خواب ہیں جن کی نہیں تعبیر کوئی
ایک اور افسانے کا عنوان ہے
“میسر ہی نہیں ہوتا اپنے پاس ہونا”
میرا شعر یوں تھا
مسلسل کوئی سرگوشی ہمکتی ہے لہو میں
میسر ہی نہیں ہوتا پر اپنے پاس ہونا
میری ایک نظم کے عنوان “پھول تمنا کا ویران سفر” کو بھی ان کے ایک افسانے کا سرنامہ بننے کا شرف حاصل ہوا۔
انہوں نے اپنے افسانوں کے پہلے کلیات کے نام “دشتِ نظر سے آگے” میں بھی میرے اس شعر کو اعزاز بخشا
یہ دل شب و روز اس کی گلیوں میں گھومتا ہے
وہ شہر جو بس رہا ہے دشتِ نظر سے آگے
میری مزید عزت افزائی کہ انہوں نے اپنے ایک افسانوی مجموعے “عکسِ بے خیال” کا انتساب بھی میرے نام کیا۔
اگر مضائقہ نہ ہو تو اس حوالے سے ایک خاص واقعے کا ذکر بھی کر دیا جائے۔ہوا یوں کہ انہوں نے میرے ایک شعر سے لیے گئے ٹکڑے “نہیں تعبیر کوئی” کے عنوان سےجو افسانہ لکھا تھا اسی عنوان کو اپنے افسانوں کے ایک مجموعے کے نام کے طور پر منتخب کر لیا، جس کی اشاعت کا اہتمام لاہور میں ہمارے دوست اشرف سلیم کے سپرد تھا۔اس نام کا ٹائٹل اشاعت کے آخری مراحل میں تھا کہ انہی دنوں رشید امجد کی افسانہ نگاری کے حوالے سے مظفر علی سید مرحوم نےاپنے ایک انگریزی اخباری کالم میں یہ لکھ دیا کہ رشید امجد کے کئی افسانوں کے عنوانات اشعار کے ٹکڑوں پر مشتمل ہیں۔ اس سے رشید امجد ایسے بدکے کہ انہوں نے کتاب کا نام ہی بدل دیا۔ تاہم اپنی فطری شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کتاب کے آغاز میں متعلقہ شعر درج کرنا نہیں بھولے۔
مجھے ہمیشہ اس بات پر حیرت رہی کہ رشید امجد میں زندگی اور کائنات کی اسراریت سے مرکزی دل چسپی کے ساتھ روزمرہ ملکی سیاست سے اتنا زیادہ لگاؤ کیوں ہے۔ یہ تو درست ہے کہ سیاسی عمل معاشرے کے تہذیبی تشخص پر اثر انداز ہوتا ہے، اس لیے کوئی تخلیق کار اس سے بے تعلق نہیں رہ سکتا۔ اور معاشرے کی سیاسی حرکیات سے باخبر رہنا ایک ذمہ دار اور بیدار نظر تخلیقی قلمکار کے لیے ضروری ہے مگر پارٹی سیاست میں ملوث ہو جانے میں تنگ دائرے کی جانب داری کا امکان بڑھ جاتا ہے اورقلمکار کے دور رس ویژن پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
واہ کینٹ کالج میں تو ہماری رفاقت دو ایک سال ہی رہی۔ پھر رشید صاحب ایف جی سر سید کالج راولپنڈی منتقل ہو گئے۔ کچھ عرصے کے بعد غلام سرور اور مشتاق قمر بھی ان کے ساتھ جا ملے۔ پانچ ایک برس کے بعد میں بھی پنڈی تبادلہ کرانے میں کامیاب ہو گیا۔ میں 1979 میں سر سید کالج راولپنڈی آیا تو اس وقت بزرگ شاعر جمیل ملک صدرِ شعبۂ اردو تھے۔ ان کی سر پرستی میں رشید امجد اپنے رفیقِ کار فاروق علی شاہ کے ساتھ مل کر اردو ادب کے ایک شاندار تاریخی منصوبے ” پاکستانی ادب” کی ترتیب و اشاعت کا کام کر رہے تھے۔ سات ضخیم جلدوں پر مشتمل جملہ اصنافِ ادب کی منتخب تحریروں کی یہ پیشکش بے شک ایک غیر معمولی کارنامے کی حیثیت رکھتی ہے۔شعری اور تنقیدی نگارشات کے انتخاب میں تھوڑی بہت معاونت کا اعزاز خاکسار کو بھی حاصل ہوا۔ اسی دوران روز نامہ نوائے وقت کے ادبی صفحے میں ڈاکٹر صاحب پر ایک خاص کیمپ کو فوقیت دینے کا الزام لگایا گیا ۔ نظریاتی اختلاف کی بنا پر ڈاکٹر صاحب اپنے تئیں اس بیان کا ملبہ مجھ پر ڈال کر ایک عرصہ میرے ساتھ اکھڑے اکھڑے رہے۔اور جب ان پر متعلقہ بیان کے پیچھے کار فرما اصل کردار کی حقیقت کھلی، تب جا کر میری طرف سے ان کا دل صاف ہوا۔اس ایپی سوڈ کا ذکر انہوں نے اپنی خوبصورت آپ بیتی “عاشقی صبر طلب” میں بھی کر رکھا ہے۔
1992 میں آرمی پبلک اسکول میں اول آئے ہوئے میرے بڑے بیٹے ثوبان نے ہمارے کالج کے پری انجینئرنگ گروپ میں داخلہ لیا۔ رشید امجد صاحب کالج میگزین “سرسیدین” کے انچارج تھے۔ یہ بات ان کے علم میں تھی کہ ثوبان نے آرمی پبلک اسکول میں کچھ طلبا سے مضامین لکھوا کر اور کچھ مضامین طلبا کے نام سے خود لکھ کر اور اپنے قلم سے املا کر کے “ایگلز” کے نام سے ایک رسالہ نہ صرف مرتب کیا بلکہ اپنے پیسوں اور طلبا کے چندے سے اس کی بہت سی فوٹو سٹیٹ کاپیاں کروا کر اساتذہ اور طلبا میں تقسیم کیں۔ثوبان کے اس تجربے اور صلاحیت کے پیشِ نظر مجھے بتائے بغیر انہوں نے اسے “سرسیدین” کا طالب علم ایڈیٹر مقرر کر دیا۔ ان کا یہ فیصلہ ثوبان اور میرے لیے خوشگوار حیرت کا باعث بنا۔ مجھے اس بات پر بہت طمانیت ہوئی کہ ثوبان نہ صرف ان کی توقعات پر پورا اترا اور پرچے کی ترتیب میں اپنی محنت اور لگن منعکس کرنے میں کامیاب رہا بلکہ اس نے پڑھائی کے میدان میں بھی بورڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کر کے ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا۔یہاں یہ بات بھی درج کرنے کی ہے کہ رشید امجد صاحب نے اپنے چھوٹے بیٹے حسین رشید کو میرے سیکشن میں داخل کروا کر بھی مجھے دلی قربت کا گہرا احساس دلایا۔
مجھے اپنے ساتھ بِیتا ایک تلخ واقعہ یاد آ گیا۔ واقعے کی تفصیل تو خاصی طویل ہے۔ یہاں اس کا صرف وہ حصہ بیان کرتا ہوں جس کا تعلق ڈاکٹر صاحب سے بھی بنتا ہے۔ہوا یوں کہ کچھ میری شرافت کا فائدہ اٹھا کر اور کچھ اپنی شاطرانہ چرب زبانی سے کام لے کر ایک پہلوان نما ٹھگ میرے گھر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ مختصر یہ کہ ہمارے جانتے بوجھتے ہوئے وہ ہم سے کچھ رقم لے ہی مرا۔ ابھی اسے رخصت کر کے ہم خجالت اور حواس باختگی سے نکل بھی نہ پائے تھے کہ ڈاکٹر صاحب بھابی محترمہ کے ساتھ تشریف لے آئے۔ہمارے چہروں پر اڑتی ہوائیاں دیکھ کر پوچھا کہ کیا بات ہے کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ میں نے قصہ بیان کیا تو بولے کوئی بات نہیں عالی صاحب جو وضع قطع آپ نے بیان کی ہے اور اس کی جن باتوں کا آپ نے تذکرہ کیا ہے، چاہے اسے آپ کے پاؤں بھی پکڑنا پڑ جاتے اس نے آپ سے کچھ نہ کچھ لے کر ہی جان چھوڑنی تھی۔ اس شخص نے اپنی چرب زبانی سے مجھے گھر کی تیسری منزل سے نیچے اتار لیا تھا اور میری جیب بھی ہلکی کر گیا تھا۔چند روز بعد وہ شمع ہوٹل کے ریسٹوران میں،جہاں ہم روزانہ شام کو گپ شپ کے لیے بیٹھتے تھے،ایک میز پر اپنے باڈی گارڈ کے ساتھ روسٹ اڑاتا دکھائی دیا۔میں نے ڈاکٹر صاحب کو متوجہ کیا تو بولے دفع کریں یہ لوگ پولیس والوں کے ساتھ مل ملا کر ہی ایسے دھندے کرتے ہیں۔
رشید امجد کو قدرت نے ایک ہی نشست میں مکمل افسانہ لکھنے کی حیرت انگیز صلاحیت سے نواز رکھا تھا۔ کئی بار ایسا ہوتا کہ کسی خالی پیرڈ میں ان پر تخلیقی لہر آتی اور وہ ہم سے باتیں بھی کرتے جاتے اور لکھتے بھی جاتے۔پتا چلتا کہ پینتیس چالیس منٹ کے وقفے میں ایک خوبصورت اور منفرد افسانہ صفحۂ قرطاس پر منتقل ہو چکا ہے۔ میں انہیں یہ کہہ کر چھیڑا کرتا تھا کہ آپ کا لاشعور آپ کے شعور سے زیادہ فعال اور مرتب و مربوط ہے۔
ڈاکٹر صاحب طلبا کے ساتھ بڑی شفقت سے پیش آتے تھے۔ چونکہ وہ خود ایک سیلف میڈ آدمی تھے اس لیے زندگی میں آگے بڑھنے کی تڑپ رکھنے والے طلبا کی مدد کرنے کو ہر لمحہ تیار رہتے تھے۔ انہوں نے یونیورسٹی کی ملازمت کے دوران کتنے ہی نوجوانوں کو ذاتی دلچسپی سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مراحل طے کروائے۔ بعض احباب نے انہیں غلط بخشی کے طعنے بھی دیے مگر وہ فیض ارزانی کرنے میں کبھی متامل نہ ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب سیر و سیاحت کے بہت شوقین تھے۔ کالج کے ہم آٹھ نو دوست ہر برس گرمیوں کی تعطیلات میں دس بارہ روز کے لیے شمالی علاقوں کی طرف کہیں نہ کہیں نکل جاتے تھے۔ خاص اس مقصد کے لیے سب نے اپنا اپنا سلیپنگ بیگ خرید رکھا تھا۔ہر سیاحتی دورے میں بس یا ویگن کی سواری کے ساتھ ساتھ میلوں پیدل سفر بھی شامل ہوتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کبھی تھکاوٹ کا اظہار نہ کرتے۔ انہوں نے ہمیشہ بہت اچھے ہم سفر ہونے کا ثبوت دیا۔ وہ رفقائے سفر سے ہر طرح کی معاونت میں پیش پیش رہتے۔ ایک بار ہم کرائے کی ویگن کے ذریعے گلگت سے ہوتے ہوئے خنجراب پاک چین سرحد کی بلندی پر پہنچ گئے۔ یخ ہوا کے ساتھ ہلکی ہلکی برف باری بھی شروع ہو گئی۔ سرحد پر صرف ایک برجی سی بنے ہوئی تھی۔ ہم سب اپنی ترنگ میں برجی سے آگے چینی سر زمین پر پیدل چلتے چلے گئے۔ کوئی دو اڑھائی کلو میٹر کے بعد چین کی پہلی حفاظتی چوکی آ گئی۔ وہاں موجود چینی سپاہیوں نے کسی تعارض کی بجائے پر تپاک انداز میں ہمارا خیر مقدم کیا۔ہمیں گرم گرم قہوا پلایا اور چینی سازوں پر اپنے ثقافتی نغموں سے بھی محظوظ کیا۔واپسی پر سرحدی برجی کے قریب ہمیں ایک پاکستانی سپاہی ملا اور خفگی سے بولا کہ ہم نے غیر قانونی طور پر سرحد کیوں پار کی۔ تھوڑی بہت تکرار ہوئی تو ہم نے اس سے کہا کہ تم بھی تو یہاں ڈیوٹی پر موجود نہیں تھے نا! اس پر وہ نرم پڑ گیا اور معاملہ رفع دفع ہو گیا۔
جب محمد منشا یاد نے ممتاز مفتی کے ایما پر “رابطہ” کی ماہانہ نشستوں کا آغاز کیا تو راولپنڈی سے رشید امجد اور مجھے بھی اس کا رکن بنا لیا۔ ہر ماہ کسی ایک رکن کے ہاں “رابطہ” کا اجلاس ہوا کرتا تھا جس میں دو تین احباب اپنی نگارشات پیش کرتے اور ان پر گفتگو ہوتی۔ کوشش یہ ہوتی کہ گفتگو میں حلقہ اربابِ ذوق والی بے لحاظی کا ماحول پیدا نہ ہو۔ اجلاس کے اختتام پر میزبان کی طرف سے مہمانوں کو رات کا پر تکلف کھانا پیش کیا جاتا۔اگرچہ رابطے کے منشور میں سختی سے سنگل ڈش کی پابندی عاید کی گئی تھی مگر کوئی رکن اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ یہاں میں قدرت اللہ شہاب کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ صرف انہوں نے منشور پر عمل کرتے ہوئے اپنی باری کے کھانے کو بلا جھجک سفید چاول اور ثابت مسور تک محدود رکھا۔اور ہم سب کے دلوں پر اپنی شخصیت کی درویشی اور استقامت کا گہرا نقش مرتسم کر دیا۔ میرے اور ڈاکٹر صاحب کے سوا کم و بیش رابطے کے تمام اراکین اسلام آباد کے رہائشی تھے۔ ہم دونوں باہمی مفاہمت سے پٹرول کے پیسے بچانے کے لیے بیگمات کے ہمراہ باری باری ایک دوسرے کی گاڑی پر اسلام آباد جاتے تھے۔ ان اجلاسوں کی وجہ سے ہی ہم دونوں کو کسی مناسب جگہ پر ذرا بڑے گھر بنانے کی ترغیب ہوئی۔ رشید امجد راجہ بازار کے ایک گنجان علاقے میں رہتے تھے جہاں اراکین کا پہچنا خاصہ دشوار تھا اور کہیں قریب گاڑیاں کھڑی کرنے کی جگہ بھی دستیاب نہیں ہوتی تھی۔ چںانچہ ڈاکٹر صاحب نے عمر بھر کی جمع پونجی سے گلستان کالونی میں ایک پلاٹ خرید کر مکان تعمیر کروایا۔ میں آر اے بازار میں کرائے کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتا تھا۔ مجھے جب دو ایک بار رابطے کے بیس پچیس مہمانوں کو بٹھانے کے لیے گراؤنڈ فلور پر مالک مکان کی بیٹھک مستعار لینا پڑی تو میں بھی سنجیدہ ہوا اور والد مرحوم کے ترکے میں ملی اپنے حصے کی زمین اور بیگم کا زیور بیچ کر اور والدہ اور ایک بھائی سے قرض لے کر چکلالہ سکیم 3 میں دس مرلے کا بنا بنایا گھر خریدنے میں کامیاب ہو گیا۔
ڈاکٹر صاحب کالج سے ریٹائر ہونے کے بعد مختلف یونیورسٹیوں میں خدمات سر انجام دیتے رہے۔آخری سات آٹھ برس انہیں مختلف عوارض کا مقابلہ بھی کرنا پڑا مگر انہوں نے درس و تدریس اور لکھنے لکھانے کی فعالیت میں زیادہ کمی واقع نہیں ہونے دی۔وہ میرے ہاں “زندہ لوگ” کی ماہانہ نشستوں میں ایک عرصے تک باقاعدگی سے شریک ہوتے رہے مگر جوڑوں اور سانس کی تکلیف کے باعث اب مشکل سے سیڑھیاں چڑھ پاتے تھے۔سال بھر سے تو کرونا کے باعث اجلاسوں کا سلسلہ بھی معطل تھا۔ ان کی وفات سے چند روز پیشتر میں نے فون پر استدعا کی کہ ڈرائیور سے کہیں کہ کسی وقت ہماری مارکیٹ کی طرف آتے جاتے میرے ہاں سے میری تازہ تنقیدی کتاب لے جائے۔ بولے میں نیاٹیل کا بل ادا کرنے صدر آیا ہوا ہوں،واپسی پر کھڑے کھڑے دروازے ہی سے آپ سے کتاب لے لوں گا،اندر نہیں آؤں گا۔ جلدی میں بھی ہوں اور آپ کی سیڑھیاں چڑھنے سے بھی بچنا چاہتا ہوں۔
میں نے کہااپنے بِل آپ اون لائن کیوں نہیں ادا کرتے۔ کہنے لگے یار مجھے موبائل سے اون لائن ادائیگی کا طریقہ نہیں آتا۔میں نے جلدی جلدی کتاب کے ایک نسخے پر پیشکش کے چند الفاظ لکھے اور ان کے انتظار میں اپنے ڈرائنگ روم کی کھڑکی کے پاس صوفے پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ تشریف لے آئے۔ میرے سیڑھیاں اتر کر گیٹ تک پہچنے سے پہلے وہ گاڑی سے باہر آ چکے تھے۔ سلام دعا کے بعد میں نے کتاب پیش کی۔دیکھ کر بولے یار بہت اچھی چھپی ہے۔نام بھی خوب ہے۔ پہلی فرصت میں پڑھ کر بات کروں گا۔میں نے کہا آپ کی افسانہ نگاری پر جو میرا طویل مضمون ہے،اس میں اسے مت تلاش کیجیے گا،یہ سارے مضامین شاعری کے حوالے سے ہیں۔ کافی عرصے سے ان کے چہرے پر ایسے تاثرات نمایاں رہتے تھے جیسے بہت جلدی میں ہوں۔ وہ گیٹ سے ہی رخصت ہو گئے۔اگلے روز ہمارا بیٹا میزان ہم میاں بیوی کو بچوں کے پاس ملتان لے گیا۔ مشکل سے چار پانچ روز گزرے ہوں گے کہ ایک صبح نو بجے کے قریب ان کے ہمسائے اور بچپن کے دوست غلام سرور کا فون آیا کہ عالی یار رشید امجد ہمیں چھوڑ گیا! میں سناٹے میں آ گیا۔ پوچھا کیا ہوا! بولا سانس کی تکلیف بڑھی تو رات ہسپتال لے گئے اور ابھی ابھی یہ خبر ملی ہے۔ میت ابھی ہسپتال ہی میں پڑی ہے۔میں نے احباب کی اطلاع کے لیے فوری طور پر یہ المناک خبر فیس بک پر درج کر دی۔ مگر میں خود بھی کافی دیر بے یقینی کی کیفیت میں رہا اور دل میں یہ کھٹکا رہا کہ کہیں غلط خبر کا اندراج تو نہیں کر دیا۔اور میری اہلیہ نے بھی مجھے کہا کہ بھابی سے کنفرم تو کر لیتے۔ تھوڑی دیر میں اختر عثمان کا فون آ گیا۔اس نے مرحوم سے میری دیرینہ دوستی کے ناتے مجھ سے تعزیت کی اور بتایا کہ گھر والوں سے پتا چلا ہے کہ جنازہ بیرونِ ملک سے بیٹوں کی آمد پر کل ہو گا۔
اردو افسانے کا ایک ممتاز،منفرد اور رجحان ساز تخلیق کار زندگی اور کائنات کے گمبھیر بھیدوں کے تعاقب میں اتنی دور نکل گیا جہاں سے واپسی ممکن نہیں!
انا للہ و انا الیہ راجعون!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں