پی آئی اے کی نجکاری: ایک فیصلہ، ایک اعتراف، اور ایک تلخ سچ
کالم نگار پروفیسر محمد رزاق امن وٹو : پی این نیوز ایچ ڈی
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (PIA) کی نجکاری بظاہر ایک خوش آئند فیصلہ دکھائی دیتی ہے۔ ایک ایسا ادارہ جو مسلسل خسارے میں جا رہا ہو، جو قومی خزانے اور عوام کے ٹیکسوں پر بوجھ بن چکا ہو، اس کی نجکاری بادی النظر میں درست معلوم ہوتی ہے۔ مقصد یہ بتایا جاتا ہے کہ عوام پر سے بوجھ ہٹے، ادارہ بہتر کارکردگی دکھائے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔
لیکن اس فیصلے کے پسِ منظر میں ایک ایسی تلخ حقیقت موجود ہے جس سے آنکھیں چرانا قومی خود فریبی کے مترادف ہوگا۔
ایک وقت تھا جب یہی پی آئی اے دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں شمار ہوتی تھی۔ یہ نہ صرف منافع بخش ادارہ تھی بلکہ بین الاقوامی معیار، نظم و ضبط اور پیشہ ورانہ مہارت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ دنیا کی کئی بڑی ایئرلائنز کی بنیاد رکھنے والے ماہرین پی آئی اے کے تربیت یافتہ تھے۔ پی آئی اے دوسروں کے لیے مثال ہوا کرتی تھی۔
پھر آہستہ آہستہ وہ وقت آیا جب کرپٹ سیاست دان، خاندانی سیاست، اقربا پروری اور بدعنوان بیوروکریسی اس ادارے پر مسلط ہو گئی۔ میرٹ دفن ہوا، پیشہ ورانہ فیصلوں کی جگہ سیاسی مداخلت نے لے لی، اور کرپشن ایک معمول بن گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک مثالی ادارہ خسارے کی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔
آج جب پی آئی اے کی نجکاری کی جا رہی ہے تو سوال صرف یہ نہیں کہ نجکاری درست ہے یا نہیں — اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس بیماری کا علاج کیا ہے جس نے پی آئی اے کو بیمار کیا؟
بدقسمتی سے جواب نفی میں ہے۔
ہم پہلے بھی کئی اداروں کی نجکاری کر چکے ہیں۔ تعلیم جیسے بنیادی شعبے کو بھی کوڑیوں کے مول دے دیا گیا۔ لیکن نہ نظام بہتر ہوا، نہ معیار بلند ہوا، بلکہ کئی جگہوں پر وہ ادارے بھی بدانتظامی اور منافع خوری کی نذر ہو گئے۔ نجکاری کے پیسے بھی بالآخر اسی کرپٹ نظام میں ہضم ہو گئے۔
یہ صورتِ حال بالکل ایسے ہے جیسے کوئی نشے کا عادی شخص گھر کا سامان بیچ کر نشہ پورا کرتا رہے۔ پہلے غیر ضروری چیزیں، پھر قیمتی اثاثے، اور آخرکار پورا گھر۔ کرپشن اب ایک نشہ بن چکی ہے، اور نشئی آج بھی اقتدار میں موجود ہیں۔ جب تک اس نشے کا علاج نہیں ہوگا، اثاثے بیچنے کا عمل رکتا نہیں رہے گا۔
آج پی آئی اے ہے، کل ریلوے ہوگی، پرسوں جنگلات، معدنی وسائل، دریا، زمینیں — سب کچھ اس نشے کی بھینٹ چڑھتا چلا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ جب سب کچھ بک جائے گا، تب کیا بچے گا؟
قانون کی عملداری ختم ہو چکی ہے۔ آئین کو اپنی مرضی کے مطابق موڑا جا رہا ہے۔ عدلیہ آزاد فیصلوں کے بجائے دباؤ کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ احتساب صرف کمزور کے لیے ہے، طاقتور کے لیے نہیں۔ ایسے ماحول میں نجکاری محض ایک مالی فیصلہ نہیں بلکہ ایک اخلاقی اعترافِ شکست بن جاتی ہے۔
یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ میں اصولی طور پر نجکاری کے خلاف نہیں ہوں۔ میں اس بات کا قائل ہوں کہ ادارے پیشہ ورانہ بنیادوں پر چلنے چاہئیں، محض سرکاری نوکریوں کا بوجھ نہیں بننے چاہئیں۔ لیکن نجکاری اگر کرپشن کے اسی نظام کے تحت ہو، اسی ہاتھوں میں جائے، اسی سوچ کے ساتھ کی جائے، تو اس کے نتائج کبھی مثبت نہیں نکل سکتے۔
اصل اصلاح نجکاری سے پہلے ہونی چاہیے تھی:
کرپشن کا خاتمہ
قانون کی بالادستی
شفاف احتساب
میرٹ کی بحالی
جب تک یہ بنیادیں درست نہیں کی جاتیں، نجکاری محض ایک عارضی بیچاؤ ہے، مستقل حل نہیں۔
اگر ہم نے اب بھی یہ نشہ نہ چھوڑا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی — اور آنے والی نسلیں ہم سے سوال کریں گی کہ تم نے ملک بچایا کیوں نہیں، صرف بیچا کیوں؟




