(سٹاف رپورٹ ،تازہ اخبار،پاک نیوز پوائنٹ )
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے سپریم کورٹ میں اپنے دلائل میں کہا کہ پارلیمانی کارروائی کو عدالتی جائزے سے استثنیٰ حاصل ہے ، کیس کا فیصلہ تفصیل میں جائے بغیر دیا جا سکتاہے.
سپریم کورٹ میں سپیکر رونگ کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے ، اپنے دلائل میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد لیو گرانٹ ہوئی ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لیو کون گرانٹ کرتا ہے ، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہاؤس لیو گرانٹ کرتا ہے.عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ایک آفیسرآف کورٹ کےطورپرنہیں سمجھتےکہ آرٹیکل 95مکمل ضابطہ نہیں؟، آپ نہیں سمجھتےکہ آرٹیکل 95کی خلاف ورزی آئین کی خلاف ورزی ہے؟
دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا یہ آپ کا آخری کیس ہے ؟، اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ اگر آپ کی یہی خواہش ہے تو مجھے منظور ہے ۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے پوری بات توسن لیں، ہم چاہتےہیں آپ آگئےہیں توکیس میں بھی دلائل دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی میٹنگ کی تفصیل کھلی عدالت میں نہیں دےسکوں گا، عدالت کسی کی وفاداری پرسوال اٹھائےبغیربھی فیصلہ کرسکتی ہے۔پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی پر ان کیمرہ سماعت میں بریفنگ دینے کو تیار ہوں.اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر مملکت کوئی وجہ یا حالات جانے بغیر اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ، وزیر اعظم سب سے بڑے سٹیک ہولڈر ہیں ، اسمبلی توڑنے کاا ختیار وزیر اعظم کے پاس ہے ، اسمبلی تحلیل کرنے کے لئے وزیر اعظم کو وجوہات بتانا ضروری نہیں، صدر سفارش پر فیصلہ نہ کریں تو 48 گھنٹے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہو جاتی ہے ۔ تحریک عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنا کسی رکن کا بنیاد حق نہیں تھا، ووٹ ڈالنے کا حق آئین اور اسمبلی سے مشروط ہے ، سپیکر کسی کی رکنیت معطل کر دیے تو وہ اسمبلی سے رجوع نہیں کر سکتا، حکومت کی تشکیل ایوان میں کی جاتی ہے ، آئین ارکان کی نہیں ایوان کی پانچ سالہ میعاد کی بات کرتا ہے.اٹارنی جنرل نے کہا کہ برطانیہ میں اسمبلی تحلیل کرنے کا وزیر اعظم کا آپشن ختم کردیا گیا ہے ، ہمارے آئین میں وزیر اعظم کا اسمبلی تحلیل کرنے کا آپشن موجود ہے.
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ رولز سے مشروط ہے ؟، اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد سمیت تمام کارروائی رولز کے مطابق مشروط ہے ، پارلیمانی کارروائی کو مکمل استثنیٰ ہونے کی دلیل کا حامی نہیں ، لیکن ایسا بھی نہیں کہ پارلیمان کے اندر مداخلت مسلسل کی جائے.جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپیکر ایوان کا نگران ہوتا ہے ، اپنی ذاتی تسکیل کیلئے نہیں بیٹھا، سپیکر ایسا تو نہیں کر سکتا کہ اپنی رائے دے اور باقی ممبران کو گڈ بائے کہہ دے ۔20فیصد ممبران نے جب تحریک پیش کر دی تو بحث کرانا چاہیے تھی،اگر 172 ارکان تحریک پیش کرنے کی منظوری دیں تو وزیراعظم فارغ ہوجائے گا.
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ووٹنگ ایک سکیم کے تحت ہوتی ہے، وزیر اعظم کو اپنے ممبرز کی شناخت کرنا ضروری ہے، وزیر اعظم کو علم ہو کہ وہ کون سے 172 ممبرز ہیں جو ان کے ساتھ ہیں،تحریک پیش کرنے کی منظوری کیلئے 20 فیصد یعنی 68 ارکان کا ہونا ضروری نہیں،اسمبلی میں کورم پورا کرنے کیلئے 86 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے،تحریک پیش کرنے کی منظوری کے وقت اکثریت ثابت کرنا ضروری ہے.
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تحریک عدم اعتماد پر لیو گرانٹ کرتے ہوئے کوئی بنیاد بتانا ہوتی ہے؟، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کی کوئی بنیاد بتانا ضروری نہیں،تحریک پیش کرتے وقت تمام 172 لوگ سامنے آ جائیں گے،تحریک پیش کرنے اور ووٹنگ میں 3سے 7 دن کا فرق بغیر وجہ نہیں، 7دن میں وزیراعظم اپنے ناراض ارکان کو منا سکتا ہے.جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیے کہ لیو گرانٹ ہوگئی تو پھر ووٹنگ ہونی ہے ،اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا کیس یہ ہے کہ لیو گرانٹ ہوئی ہی نہیں،جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے استفسار کیا کہ پھر سپیکر نے کیسے ووٹنگ کے لیے اجلاس بلالیا؟، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپیکر نے لیو گرانٹ کی ہی نہیں.چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فواد چودھری 28 مارچ کو اعتراض کرتے تو کیا تحریک پیش کرنے سے پہلے مسترد ہوسکتی تھی؟ ، اٹارنی جنرل نےجواب دیا کہ تحریک پیش ہونے کے وقت بھی مسترد ہو سکتی تھی،تحریک عدم اعتماد قانونی طور پر پیش کرنے کی منظوری نہیں ہوئی۔
جسٹس مظہر عالم نے استفسارکیا کہ سپیکر نے قرار دیدیا کہ تحریک منظور ہوگئی آپ کیسے چیلنج کر سکتے ہیں؟ ، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپیکر کی رولنگ چیلنج نہیں ہو سکتی تو کیس ہی ختم ہو گیا .
200