آج کے کالمزبین الاقوامی کالمزکالمز

ہمارے بچے تو بڑے اچھے ہوتے ہیں مگر نظام انہیں شیطان بنا دیتا ہے

(انجینئر افتخار چودھری)

ہمارے بچے تو بڑے اچھے ہوتے ہیں مگر نظام انہیں شیطان بنا دیتا ہے

(انجینئر افتخار چودھری)

"قوموں کی زندگی میں نوجوان وہ چنگاریاں ہیں جو اگر ایمان سے جلیں تو انقلاب برپا کر دیتی ہیں، اور اگر مفاد کی آگ میں جھلس جائیں تو بربادی مقدر بن جاتی ہے۔”

اللہ تعالیٰ ہمارے ان بہادر کیڈٹس کو عزت، کامیابی اور استقامت عطا فرمائے۔
یہ نوجوان ہماری قوم کا فخر ہیں، ہمارے کل کے محافظ، ہمارے خوابوں کے نگہبان۔ ان کے چہروں پر چمکتی ہوئی جوانی، ایمان کی حرارت، اور وطن سے محبت کی خوشبو ایسی ہے کہ دل چاہتا ہے ان سب کے لیے سجدہ شکر ادا کیا جائے۔ جب پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کے میدان میں یہ نوجوان حلف اٹھاتے ہیں کہ "ہم پاکستان کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کریں گے” تو ایک بوڑھا پاکستانی ان کی طرف دیکھ کر صرف ایک دعا دیتا ہے —
"اے اللہ! ان کے جذبوں کو سلامت رکھ، مگر ان کے راستوں میں وہ نظام مت آنے دینا جو ان کے ایمان کو زنگ لگا دے۔”

میں جب ان نوجوان چہروں کو دیکھتا ہوں تو دل میں روشنی بھر جاتی ہے۔ ان کی وردی میں ایمان کی چمک، آنکھوں میں ذمہ داری، اور دلوں میں شہادت کی آرزو موجزن ہوتی ہے۔ مگر اسی لمحے ذہن میں ایک دردناک سوال سر اٹھاتا ہے —
یہی بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو کہاں گم ہو جاتے ہیں؟
یہی ہاتھ جو کبھی وطن کے پرچم کو سلام کرتے ہیں، وہی ہاتھ بعد میں کرپشن کی فائلوں پر دستخط کیوں کرنے لگتے ہیں؟
یہی نظریں جو کبھی دشمن کو للکارتی تھیں، وہی نظریں اقتدار کے غلام کیوں بن جاتی ہیں؟

یہ سوال میرا نہیں، یہ ہر پاکستانی کا سوال ہے۔
۔۔۔۔۔۔جیسا شخص، جس نے کیڈٹ کالج پٹارو سے تعلیم حاصل کی، جو نظم و ضبط، حب الوطنی اور قیادت کی تربیت کا مرکز سمجھا جاتا ہے — وہ آخر کہاں بگڑ گیا؟
تعلیم نے اس کو اچھا انسان کیوں نہ بنایا؟
اصل بات یہ ہے کہ ہمارا نظامِ تربیت نہیں، نظامِ مفاد ہے۔ ہمارے ادارے بہترین بچے پیدا کرتے ہیں مگر ریاست کا ماحول، سیاست کا زہر، اور طاقت کا جادو ان معصوم ذہنوں کو آہستہ آہستہ کھا جاتا ہے۔
شفیق الرحمٰن مرحوم نے سچ کہا تھا:
"پاکستانی بچے بڑے اچھے ہوتے ہیں، مگر ان میں خرابی یہ ہے کہ وہ بڑے ہو جاتے ہیں۔”
یہ جملہ محض طنز نہیں، ایک المیہ ہے۔
ہم اپنے بچوں کو اسکول میں سچ بولنا سکھاتے ہیں، مگر معاشرہ انہیں جھوٹ سے انعام دیتا ہے۔
ہم انہیں حلال رزق کا درس دیتے ہیں، مگر وہ دیکھتے ہیں کہ ناجائز کمائی کرنے والا ہی عزت پاتا ہے۔
ہم انہیں ایمان، دیانت اور خدمت کے اصول پڑھاتے ہیں، مگر پھر اقتدار کی گلیوں میں یہی اصول مذاق بن جاتے ہیں۔
ہمارے نوجوان کیڈٹس جب کاکول سے نکلتے ہیں تو ان کے دلوں میں ایک پاکستان بستا ہے — قائد اعظم والا پاکستان، علامہ اقبال والا پاکستان، جہاں انصاف ہو، قانون کی بالادستی ہو، عزت میرٹ سے ملے، اور جرم سزا پائے۔
لیکن افسوس! جب وہ حقیقت کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں نظر آتا ہے کہ یہاں تو قانون طاقتور کے گھر کا ملازم ہے، انصاف امیروں کا غلام ہے، اور سچ بولنے والا جیل میں جاتا ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں ایک اچھا بچہ نظام کی چکی میں پس کر یا تو خاموش ہو جاتا ہے، یا نظام کا حصہ بن جاتا ہے۔
کاکول کے ان نوجوانوں میں سے کچھ وہ ہوں گے جو کل کو جنرل بنیں گے، کچھ بیوروکریٹ، کچھ سیاستدان۔
ان میں سے کوئی بھی زرداری بن سکتا ہے — اگر نظام وہی رہا۔
یہ نظام ہی تو ہے جو مظلوم کو خاموش کر دیتا ہے، سچ کو دباؤ میں لے آتا ہے، اور عوام کو تماشائی بنا دیتا ہے۔
یہ نظام ہی ہے جو عدالتوں کو تقسیم کرتا ہے، صحافت کو بکاو بناتا ہے، اور نوجوانوں کو مایوس کر دیتا ہے۔
میں نے اپنی زندگی میں یہ سب دیکھا ہے۔ میں نے ان کیڈٹس کو صبحِ وطن کا وعدہ کرتے دیکھا، اور پھر انہی میں سے کچھ کو شامِ اقتدار کی محفلوں میں گم ہوتے بھی دیکھا۔
مگر میں ناامید نہیں ہوں۔
کیونکہ ابھی بھی وہ جذبہ زندہ ہے جو 1965 میں ٹینکوں کے سامنے نعرہ تکبیر لگا کر کھڑا ہوا تھا، وہ روح ابھی بھی کاکول کے میدانوں میں گونجتی ہے۔
مسئلہ صرف ایک ہے — قائد کا پاکستان ابھی تک نظام کی قید میں ہے۔
ہم نے ریاست تو بنا لی، مگر ضمیر کا پاکستان نہیں بنا پائے۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہر نسل وہی سوال دہرا رہی ہے:
"قانون کی بالادستی قائداعظم کے پاکستان میں کیوں نہیں؟”
"علامہ اقبال کا خواب آج تک تعبیر کیوں نہیں ہوا؟”
کسی نوجوان وزیر نے جدہ میں کہا تھا:
"پاکستان بہت اچھا ملک ہے، اگر یہاں قانون کی بالادستی ہو۔”
میں اس بات کو آج کے کالم کا محور بنا دیتا ہوں۔
ہمارے ملک کی تمام برائیاں ایک ہی نکتے سے پھوٹتی ہیں — قانون کی بے بسی۔
اگر قانون سب پر برابر لاگو ہو جائے تو نہ مارشل لا لگے، نہ کرپشن بچے، نہ ظلم پنپے۔
مارشل لا صرف ٹینک کا نام نہیں، یہ سوچ کا نام ہے —
جب کوئی خود کو قانون سے بالاتر سمجھ لے، وہی مارشل لا ہے۔
اور جب کسی معصوم کی آواز کو دبا دیا جائے، وہی ظلم کی بدترین شکل ہے۔
میری صرف ایک دعا ہے:
خدا کے لیے اب اس وطن پر مارشل لا نہ لگائیں،
یہ قوم اب مزید ظلم برداشت نہیں کر سکتی۔
آج بھی جب میں کاکول کے نوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو دل کہتا ہے —
یہی پاکستان کی اصل طاقت ہیں۔
یہی وہ نسل ہے جو اگر نظام سے ٹکرا جائے تو اسے بدل سکتی ہے۔
مگر شرط یہ ہے کہ ان کے ایمان کو مفاد کے بوجھ تلے دفن نہ ہونے دیا جائے۔
انہیں وہی جذبہ زندہ رکھنا ہوگا جو بدر و حنین کے میدان میں تھا،
انہیں وہی راستہ اپنانا ہوگا جو عمر بن الخطابؓ نے دکھایا —
جہاں انصاف اپنی ذات پر بھی نافذ ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے ان بہادر کیڈٹس کو عزت، کامیابی اور استقامت عطا فرمائے۔
یہ نوجوان ہماری قوم کا فخر ہیں، اور ان کا جذبہ ایمان، حب الوطنی اور قربانی کا عزم ہمارے وطن کی سلامتی کی ضمانت ہے۔
پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کو سلام، اور ان تمام کیڈٹس کو مبارکباد جنہوں نے دفاعِ وطن کے مقدس عہد کو اپنا نصب العین بنایا۔
اللہ پاکستان کی سرزمین کو ہمیشہ امن و سکون کا گہوارہ بنائے۔
افواجِ پاکستان زندہ باد —
اور یہ بھی دعا ہے کہ اللہ نہ کرے یہ پاکیزہ کیڈٹس بڑے ہو کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے مفاد پرست کرداروں میں ڈھل جائیں۔
یہ وہ نسل ہے جو اگر ایمان پر قائم رہے تو پاکستان کے مقدر کو بدل سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی چیک کریں۔
Close