آج کے کالمزپاکستانفیچر کالمزکالمز

اے محبت، تیرے انجام پر رونا آیا

کل جو ویڈیو وائرل ہوئی، اس میں کوئی فلمی ولن نہیں، نہ کوئی ایکشن سین تھا

کالم نگار: پروفیسر محمد رزاق امن وٹو :پی این پی نیوز ایچ ڈی

کل جو ویڈیو وائرل ہوئی، اس میں کوئی فلمی ولن نہیں، نہ کوئی ایکشن سین تھا۔ وہاں ایک نہتی لڑکی تھی، جس کے ہاتھ میں نہ بندوق تھی، نہ زبان میں بارود۔ اُس کے پاس صرف محبت تھی — اور اُس محبت کی پاداش میں انیس مسلح مردوں نے اُسے گولیوں سے بھون دیا۔ جیسے وہ کسی دشمن فوج کی سپاہی تھی، جیسے وہ کوئی خطرناک دہشتگرد تھی، جیسے اُس کے دل میں موجود محبت کی آگ پورے قبیلے کو جلا دے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف ایک لڑکی تھی — وہی جسے اس معاشرے نے پیدا ہونے پر بیٹی کہہ کر برداشت کیا، اور محبت کرنے پر لعنت کہہ کر مار دیا۔

ہماری غیرت کا پیمانہ بھی بڑا نرالا ہے۔ عورت خاموش ہو تو نیک، بولے تو بدکردار، اور اگر اپنی مرضی کی بات کرے تو واجب القتل۔ لڑکی اگر اپنے دل کی بات کرے تو خاندان کی عزت لرز جاتی ہے، مگر لڑکا اگر چپکے سے چار شادیوں کے ارادے رکھے، تو مرد ہے جی، اس کا حق ہے یہی وہ سماجی تضاد ہے جس نے محبت کو جرم اور محبت کرنے والی لڑکی کو عبرت بنا دیا ہے۔

کیا یہ غیرت ہے؟ نہیں جناب، یہ صرف بزدلی ہے۔ وہ غیرت جو صرف لڑکی کی پسند پر جاگتی ہے، مگر مرد کی بدکرداری، جھوٹ، مکاری، اور ظلم پر گہری نیند سوتی ہے، وہ غیرت نہیں، انا کی بیمار چیخ ہے۔ معاشرہ جب محبت کو سزا دیتا ہے، تو دراصل وہ اپنی ناکامیوں، فرسودہ روایتوں اور کمزور نظام عدل پر پردہ ڈال رہا ہوتا ہے۔

ویڈیو میں گولیوں کی آوازوں سے زیادہ خوفناک وہ خاموشی ہے جو معاشرے نے اختیار کر رکھی ہے۔ کوئی احتجاج نہیں، کوئی ماتم نہیں، صرف ایک وائرل کلپ، کچھ افسوس والے ایموجی، اور دو دن بعد خاموشی۔ وہ لڑکی گولیوں سے مری، ہم ضمیر سے — فرق صرف یہ ہے کہ اُس کی قبر بنی، ہماری بے حسی کا کوئی حساب نہیں۔

کاش ہم سمجھ پاتے کہ محبت گناہ نہیں، فطرت ہے۔ جرم وہ ہے جو انیس بندوق بردار کرتے ہیں، اور اُس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ جرم وہ ہے جو پورا معاشرہ خاموشی سے دیکھتا ہے اور پھر سب بھول جاتا ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو لاش پر تبصرہ کرتے ہیں، اور اگلے دن نئی وائرل ویڈیو کا انتظار کرتے ہیں۔

آج اگر کسی نے واقعی غیرت کا مظاہرہ کیا ہے، تو وہ وہ لڑکی تھی — جو تن تنہا کھڑی رہی، محبت کے ساتھ،سچائی کے ساتھ، اور اپنی مرضی کے حق کے ساتھ۔ اور جو معاشرہ انیس مردوں کی بندوقوں سے زیادہ اُس ایک لڑکی کے ارادے سے خوفزدہ ہو جائے، وہ صرف بزدل معاشرہ نہیں — وہ قاتل معاشرہ ہے۔

اور ہم؟ ہم صرف تماشائی ہیں، جو اے محبت، تیرے انجام پر رونا آیا کہہ کر پھر خاموش ہو جاتے ہیں۔ جیسے یہ سب کسی اور سیارے پر ہو رہا ہو۔ جیسے اگلی بار گولیوں کا نشانہ کسی اور کی بیٹی ہو — اور ہمیں فرق نہ پڑے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے