اسلام میں کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں، تاحیات عدالتی تحفظ شریعت اور آئین دونوں کے خلاف ہے:ممتاز عالمِ دین اور معروف اسلامی اسکالر مفتی محمد تقی عثمانی
"تاحیات کسی کو عدالتی کارروائی سے تحفظ دینا شریعت اور آئین کے خلاف ہے".مفتی تقی عثمانی
اسٹاف رپورٹ : پی این نیوز ایچ ڈی
"تاحیات کسی کو عدالتی کارروائی سے تحفظ دینا شریعت اور آئین کے خلاف ہے”.مفتی تقی عثمانی
ممتاز عالمِ دین اور معروف اسلامی اسکالر مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق کوئی بھی شخص، خواہ وہ کتنا ہی بڑا عہدہ رکھتا ہو، قانون اور عدلیہ کے دائرۂ احتساب سے بالاتر نہیں ہوسکتا.
انہوں نے کہا کہ اسلامی تاریخ میں خلفائے راشدین تک نے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا، یہاں تک کہ خلیفہ وقت سے عام شہری نے عدالت میں سوال کیا تو اس کا جواب دینا ضروری سمجھا گیا۔ "اسلام میں قانون کی بالادستی سب پر یکساں طور پر نافذ ہوتی ہے۔ کسی کو بھی اس سے استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا.”
مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں ماضی میں بھی صدرِ مملکت کو عہدے کے دوران عدالتی کارروائی سے عارضی استثنیٰ حاصل رہا ہے، جو شرعی اعتبار سے درست نہیں تھا، لیکن اب اگر کسی شخص کو تاحیات (یعنی زندگی بھر کے لیے) عدالتی کارروائی سے تحفظ دینے کا قانون بنایا گیا تو یہ اسلامی عدل و انصاف کے بنیادی اصولوں اور آئینِ پاکستان کی روح کے سراسر منافی ہوگا.
انہوں نے کہا کہ "اسلام میں عدل کی بنیاد مساوات پر ہے، اور جب انصاف میں تفریق کی جاتی ہے تو قومیں زوال پذیر ہوجاتی ہیں.”
مفتی تقی عثمانی نے اس ممکنہ قانون سازی کو "ملک کے لیے شرمناک اور خطرناک” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر پارلیمنٹ اس کی منظوری دیتی ہے تو یہ اقدام نہ صرف شرعی اصولوں کی خلاف ورزی ہوگا بلکہ قانون کی حکمرانی پر بھی کاری ضرب لگائے گا.
انہوں نے اراکینِ پارلیمنٹ سے اپیل کی کہ وہ ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں اور ایسا گناہ اپنے سر نہ لیں جس کا اثر آئندہ نسلوں پر پڑے گا.




