Malala Yousafzai Decorates Cover Page of British Fashion Magazine Vogue and Criticizes Social Media 290

ملالہ یوسف زئی سوشل میڈیا برطانوی فیشن میگزین ووگ کے کوور پیج کی زینت اور سوشل میڈیا پر تنقید

ملالہ یوسف زئی سوشل میڈیا برطانوی فیشن میگزین ووگ کے کوور پیج کی زینت اور سوشل میڈیا پر تنقید
تحریر : زبیر خان بلوچ
غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق برطانوی فیشن میگزین ووگ کے رواں برس جولائی کے ماہ آنے والے شمارے میں ملالہ یوسفزئی سرورق پر نظر آئیں گی.
جس میں انٹرویو دیتے ہوئے ملالہ یوسفزئی نے کہا “مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں، ہم شادی کے بغیر ایک ساتھ پارٹنرز کی طرح کیوں نہیں رہہ سکتے؟“
ملالہ نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ ایک نوجوان لڑکی جس کا کوئی مشن ہو جس کا کوئی نظریہ ہو اس کے دل میں کتنی طاقت ہوتی ہے اور میں امید کرتی ہوں کہ جو بھی لڑکی یہ کور دیکھے گی اس کو اندازہ ہوگا کہ وہ بھی دنیا تبدیل کرسکتی ہے.

برٹش ووگ کے ایڈیٹر ان چیف ایڈورڈ نے اپنے سوشل میڈیا پر ملالہ کے بارے میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
“جب ان لوگوں کی بات ہوتی ہے جن کی میں تعریف کرتاہوں تو “ملالہ یوسف زئی” سب سے اوپر ہیں.23 سال کی عمر میں،دنیا کی سب سے مشہور یونیورسٹی سے گریجویٹ ہونے والی ملالہ پہلے ہی بہت سی زندگی گزار چکی ہیں،بطور سرگرم سماجی کارکن، مصنفہ، لڑکیوں کی تعلیم کے لئے وہ انتھک مہم چلانے والی، بیٹی ، بہن،طالب علم اور زندہ بچ جانے والی ، یہ سمجھنا مشکل ہے کہ صرف ایک دہائی قبل وہ ایک نوجوان تھیں جن میں سیکھنے کا جنون تھا.
انہوں نے مزید لکھا وہ پاکستان کی وادی سوات میں رہتی تھیں، بی بی سی کے لئے اپنے تجربے کے بارے میں بلاگ لکھتی تھیں اور ایک عام طالب علم تھیں.2012 میں ان پر ایک مہلک حملہ ہوا اور وہ حادثہ انہیں سرجری کے لئے برطانیہ لایا گیا اور ان کا علاج ہوا اور بعد میں انھیں 2014 کو نوبل انعام سے بھی نوازا گیا سب سے ینگ اور چوٹی عمر میں کم عمر بچوں کی مزدوری ختم کرنے اور تمام بچوں ، لڑکیوں اور جوانون کو یکساں تعلیم دینے کے لیے کوششیں کرنے پر اور وہ پاکستان کی سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ خاتون ہیں.
اب آتے ہیں اسلام کی روشنی میں ان کے اس بیان پر کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں ؟
میں محترمہ ملالہ یوسف زئی صاحبہ کی بذات خود عزت کرتا ہو اور ہمیں فخر ہے ان پر کہ وہ پہلی پاکستانی نوبل انعام یافتہ ہیں پر انکے بیان اور انٹریو پر متفق نہی ہوں جو انہوں نے برطانوی فیشن میگزین ووگ کو دیا تو قرآن و حدیث میں واضح طور پر اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے بالغ ہوتے ہی انہیں سادگی سے نکاح کے بندھن میں باندھ دیا جائے تاکہ وہ ایک حلال رشتے میں بندھ کر مطمین اور صحت مند زندگی گزار سکیں اور گناہوں سے بچے رہیں.جب کہ ہمارے معاشرے میں اسلامی احکامات کے برعکس مذکورہ بالا سطور میں درج کی گئی اہم وجوہات اس معاملے کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں اور معاشرے نے انہیں لازمی قرار دے کر شرائط میں شامل کر رکھا ہے.
آنحضرت محمد صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: “النکاح من سُنّتی” نکاح میری سنّت ہے.ایک اور حدیث میں صاف صاف واضح کردیا گیا ہے کہ نکاح کرتے ہوئے دین دار ہونا ہی پہلی ترجیح ہونی چاہیے اور دیگر معاملات اتنے اہم تصور نہیں کیے جانے چاہییں.جب کہ ہمارے یہاں معاملہ اب اس کے بالکل برعکس ہو چلا ہے اب اگر غور کیا جائے تو اس مسئلے اور مشکل کا حل بھی خود اسی میں پوشیدہ ہے.
ملالہ یوسف زئی کو ایسے بیان سوچ سمجھ کے دینا چایے تھا وہ ایک پاکستانی کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان خاتون بھی ہیں.
اسلام ایک کامل مذہب ہے اور اس میں سب کے حقوق واضح ہیں اور سب کچھ واضح ہمیں مل جاتا ہے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں