آج کا سفر بڑا انوکھا ہے۔ ایک خادم رسول کے ساتھ محو سفر ہوں اور آسانیاں آسمان سے ہم پر برس رہی ہیں۔
ہم گزشتہ رات تقریبا 12:45 کے لگ بھگ ہوائی اڈے پر پہنچے۔ بزنس کلاس کے لاؤنج کی خوبصورت نیم خوابیدہ فضا سلائے دے رہی تھی مگر ہمیں جانا تھا۔ طیارے پر سوار ہوئے اور گہرے بادلوں کا سینہ چیرتے ہوئے صبح دم مسقط کی گود میں جا سمائے۔ کچھ دیر خوب چلے، تھوڑا بیٹھے اور پھر سے اسلام آباد کو اڑان بھری۔ راب بادل اور چاند تھا اور اب چمکتا سورج۔ مکران کے ساحلوں کی فضاؤں میں تیرتے نگاہ سمندر سے پھسل کر گہری سرخ مٹی کی پہاڑیوں میں اترتی سبزہ مائل نیلگوں جھیل پر جا ٹھہری۔ کیا منظر تھا۔ سبحان اللہ کیسا امتزاج تھا، اللہ اکبر۔ بالکل ویسے ہی جیسے کسی انتہائی طرح دار کی عورت کی شادی کسی بدعقل سے ہوجائے یا کسی بڑے عاقل کو اکبری جا ملے۔
منظر حسین تھا ،جب تک نگاہوں سے اوجھل نہ ہوا آنکھوں میں بساتی رہی۔
جہاز تخت سلیمان سے گزر رہا تھا۔ بچپن کی کئی کہانیاں یاد آگئیں۔ پریاں، اور تخت سلیمان کے جنات۔جیکب آباد کا نام اسکرین پر چمکا تو خالہ رشیدہ بے حد یاد آئیں۔ بڑا پیارا ہنستا بستا گھر تھا ان کا پھر اچانک خالو جان کی جوان موت نے وہ ڈور ہی کاٹ دی جس کے کنارے کو تھام کر ایک بھول بھالی عورت کھلے آسمان پر بے خوف اڑتی پھرتی تھی۔
عین جوانی میں بیوہ ہوئیں ، بچوں کو پڑھایا، بیاہی مگر کبھی روتے سسکتے نہ دیکھا۔ ہر وقت کام ، گھر ، پوتے پوتیاں سب مہکتے رہتے۔ رات کو چھوٹے بچوں کو اپنے ساتھ سلاتیں کہ بہو کی نیند خراب ہوگی اور کمرے سے پہلے سبق دہرانے اور پھر قرآن کی سورتیں اور دعائیں یاد کروانے کی نیند کے خمار میں ڈوبی آواز آتی۔ ساری زندگی انتہا کی سادگی میں کاٹی اور دو دن بیمار رہ کر خاموشی سے جیسے جیتی تھیں ویسے ہی مر گئیں۔
لوگ تنہائی سے ڈرتے ہیں مگر یہ اکیلا پن مجھے محفل خاص میں لے جاتا ہے۔ کبھی سب چھوڑ کر ، الگ تھلگ بیٹھیے گا ضرور۔ ان لوگوں کو یاد کیجیے گا جو بھلائے گئے۔ اور مغفرت کی دعا بھی کر دیجیے گا کہ جب ہم نہ ہوں گے کوئی تو دو ہاتھ ہمارے لیے بھی اٹھیں گے۔
دل دھڑک رہا تھا۔ حلق آنسوؤں سے بھر گیا۔ کرونا کے چار سال بعد اپنے وطن کی مٹی دیکھ رہی تھی۔ رگ رگ میرے پیارے وطن کے موسموں کی خوشبو سے مہک رہی تھی۔
محترم بھائی ، ڈاکٹر خالد دوسرے کونے کی سیٹ پر زکام کی شدت سے گہرے سانس لیتے اور کچھ پڑھتے جا رہے تھے۔ کیسی ماں ہو گی جس نے یہ خادم رسول پالا! اس مبارک ہستی کا ہر سفر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با برکات کو دنیا میں متعارف کروانے کے لیے ہوتا ہے۔ آج یہ خاک مدینہ بھی اس قافلے کا حصہ ہوئی۔ کیسا مقدر چمکا میرا۔
(جاری ہے)
138