(تحریر۔:مدثر حسین ،تازہ اخبار،پاک نیوز پوائنٹ )
یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر سمجھدار شخص کے گمان کو متاثر کرتا ہو گا. احادیث نبوی( صلی اللہ علیہ وسلم) سے اور رب العالمین کے فرامین سے جو
دروس اور رمضان کی برکات و انعامات کا جہاں تزکرہ کیا جاتا وہیں یہ انعام بھی دیا جاتا کہ انسان کو برائی میں مبتلا کرنے والا سب سے بڑا چال باز جو کہ شیطان ہے کو جکڑ دیا جاتا ہے باوجود اس کے انسان گناہ سے بچ نہیں پاتا. وجہ یہ ہے کی جب طلب جنون کے درجے کو عبور کر کے بڑھتے بڑھتے ہوس کے درجے پر جا پہنچتی ہے تو حال و حرام کا فرق مٹ جاتا ہے۔ اور یہ کام انسان کے اندر موجود اسکا نفس شیطان کی ہدایات پر عمل کر کے انجام دیتا ہے
طریقہ واردات یہ ہے کی جب
انسان کی کسی چیز کو حاصل کرنے کی طلب، طلب کی حد اور طلب کے درجے تک رہتی ہے معاملات ٹھیک رہتے ہیں۔ پھر شیطان انسان کے نفس کو بہکاتا ہے جس سے اس کی سوچ میں حسد کی فضا قائم ہو جاتی ہے اور وہ اس کی طلب کو نیا رنگ دینے لگتی ہے۔ بربادی کا سفر شروع ہو جاتا ہے اور انسان اچھائی کو بھول جاتا ہے اور طلب کے ہر ممکن حصول کے لیے شیطانی دیئے گئے راستوں سے اپنےحسد کی آگ بجھانے لگتا ہے اور طلب کی تکمیل کے لئے ہر اچھا برا عمل کرنے کے لئے تیار رہنے لگتا ہے۔ جب حسد کی آگ مزید عروج پکڑتی ہے تو نفس اسی طلب کو ہوس میں بدل دیتا ہے۔ انسان الله کی رحمت سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔اور شیطان کی مسلسل دی جانے والی تدابیر پر عمل کرتے کرتے جھوٹ، دھوکہ دہی، حق تلفی، ظلم، زیادتی، ملاوٹ جیسی بے پناہ خامیوں کو اپناتے ہوئے خون ریزی تک کرنے سے گریز نہیں کرتا. اسی لئے رمضان میں شیطان تو جکڑا ہوتا ہے لیکن انسان کے اندر شیطان کا تربیت کردہ نفس انسان کے اندر رہتے ہوئے شیطان کے بتائے ہوے طریقوں اور تدبیروں پر عمل احسن طریقے سے جاری رکھتا ہے۔ زرہ سوچئے غلطی کہاں ہوئی؟ انسان اللہ کہ رحمت سے دور کب ہو گیا؟
جب شیطان نے انسان کی جائز ضرورت کی طلب میں اضافہ کیا۔ نتیجتاً اب شیطان کی غیر موجودگی میں بھی انسان گناہ میں ہے۔ شیطان انسان کی طلب بڑھاتے بڑھاتے ہوس کے درجے تک لے آیا اور انسان نے اپنے نفس کو شیطان کے رحم کرم پر چھوڑے رکھا خدارا شیطان کی پہلی چال کو سمجھئے اور اسے ناکام بنائیے اپنے نفس کو شیطان کے چنگل میں پھنسنے سے بچائیے
اس کے بہت سے طریقے اور بھی سیرت النبیؐ سے ملتے ہیں جن میں الله کی راہ میں خرچ کرنا اول درجہ کے کاموں میں سے کام ہے۔ جب انسان اپنی طلب پر کسی کی ضرورت کو فوقیت دیتا ہے تو انسان کی طلب میں کمی ہوتی ہے اور سخاوت کا پہلو عوج پر آتا ہے۔ یہ ایسا عمل ہے جو انسان کو بخیل ہونے سے بعض رکھتا ہے۔دولت طاقت شہرت اور ہوس جیسے نشے کو حاوی ہونے سے روکتا ہے۔ اور یہ اعمال الله کریم کے پسندیدہ کاموں میں سے ہیں۔ اللہ کی زات کریم ہے اور اپنی مخلوق کے ساتھ احساس والا معاملہ کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔ دوسروں کے احساس کرنے والا یہ عمل شیطان اور نفس کے خلاف جہاد کا کام کرتا ہے۔ جس سے انسان اللہ کی رحمت کے حصار میں رہتا ہے۔
ہوس کے اس عنصر کو اللہ رب العزت نے خود بھی قرآن کریم میں بیان کیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ(۱)حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ(۲)
ترجمہ: زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نے تمہیں غافل کردیا ۔ یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ کثرتِ مال کی حرص اور اس پر اور اولاد پرفخر کا اظہار کرنا مذموم ہے اور اس میں مبتلا ہو کر آدمی اُخروی سعادتوں سے محروم رہ جاتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًاؕ-وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ‘‘(حدید:۲۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جان لو کہ دنیا کی زندگی توصرف کھیل کود اورزینت اور آپس میں فخرو غرور کرنا اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے ۔(دنیا کی زندگی ایسے ہے)جیسے وہ بارش جس کا اُگایاہواسبزہ کسانوں کواچھا لگا پھر وہ سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا ہوا (بے کار)ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللّٰہ کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا(بھی ہے) اور دنیاکی زندگی تو صرف دھوکے کاسامان ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ‘‘(منافقون:۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللّٰہ کے ذکر سے غافل نہ کردے اور جو ایسا کرے گاتو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔
اور ارشاد فرمایا:
’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ اَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْۚ-وَ اِنْ تَعْفُوْا وَ تَصْفَحُوْا وَ تَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۴)اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌؕ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۱۵)فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِكُمْؕ-وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘(تغابن:۱۴-۱۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! بیشک تمہاری بیویوںاور تمہاری اولاد میں سے کچھ تمہارے دشمن ہیں تو ان سے احتیاط رکھو اور اگر تم معاف کرواور درگزرکرو اور بخش دو تو بیشک اللّٰہ بڑا بخشنے والا، بہت مہربان ہے ۔تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہی ہیں اور اللّٰہ کے پاس بہت بڑا ثواب ہے۔تو اللّٰہ سے ڈرو جہاں
تک تم سے ہوسکے اور سنو اور حکم مانو اور راہِ خدا میں خرچ کرو یہ تمہاری جانوں کے لیے بہتر ہوگا اور جسے اس کے نفس کے لالچی پن سے بچالیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔
اورحضرت مُطْرَف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا،اس وقت آپ’’اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ‘‘ کی تلاوت فرما رہے تھے،آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا: ’’ابنِ آدم کہتا ہے کہ میرا مال،میرا مال،اے ابنِ آدم:تیرا مال وہی ہے جو تو نے کھا کر فنا کر دیا، یا پہن کر بوسیدہ کر دیا، یا صدقہ کر کے آگے بھیج دیا۔ (مسلم، کتاب الزّہد و الرّقائق، ص۱۵۸۲، الحدیث: ۳-(۲۹۵۸))
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بندہ کہتا ہے کہ میرا مال،میرا مال، ا س کے لئے تو اس کے مال سے صرف تین چیزیں ہیں (1)جو ا س نے کھا کر فنا کر دیا۔(2)جو ا س نے پہن کر بوسیدہ کر دیا۔(3)جو کسی کو دے کر(آخرت کے لئے) ذخیرہ کر لیا۔اس کے ما سوا جو کچھ بھی ہے وہ جانے والا ہے اور وہ اس کو لوگوں کے لئے چھوڑنے والا ہے۔( مسلم، کتاب الزّہد و الرّقائق، ص۱۵۸۲، الحدیث: ۴-(۲۹۵۹))
حضرت عمرو بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ خدا کی قسم !مجھے تمہارے غریب ہو جانے کا ڈر نہیں ہے،مجھے تو اس بات کا ڈر ہے کہ دنیا تم پر کشادہ نہ ہو جائے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر ہوئی تھی،پھر تم اس میں رغبت کر جاؤ جیسے وہ لوگ رغبت کر گئے اور یہ تمہیں ہلاک کر دے جیسے انہیں ہلاک کر دیا۔( بخاری، کتاب الجزیۃ و الموادعۃ، باب الجزیۃ و الموادعۃ مع اہل الذّمۃ و الحرب، ۲ / ۳۶۳، الحدیث: ۳۱۵۸)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مال و اَسباب کی کثرت سے مالداری نہیں ہوتی بلکہ (اصل) مالداری تو دل کا غنی ہونا ہے،خدا کی قسم!مجھے تمہارے بارے میں محتاجی کا خوف نہیں ہے لیکن مجھے تمہارے بارے ا س بات کا خوف ہے کہ تم کثرت ِمال کی ہوس میں مبتلا ہو جاؤ گے۔( مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ، ۳ / ۶۴۵، الحدیث: ۱۰۹۵۸)
حضرت کعب بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ دو بھوکے بھیڑیئے جو بکریوں میں چھوڑ دیئے جائیں وہ ان بکریوں کو اس سے زیادہ خراب نہیں کرتے جتنا مال اور عزت کی حرص انسان کے دین کو خراب کر دیتی ہے۔( ترمذی، کتاب الزّہد، ۴۳-باب، ۴ / ۱۶۶، الحدیث: ۲۳۸۳)
ان ارشادات و فرامیں سے بھرپور آگہی ملتی ہے کہ اپنی طلب کو کنٹرول کرنا کتنا ضروری ہے۔
نفس اور شیطان کے خلاف علم جہاد بلند کیجئیے۔ زندگی کے اصل مقصد کو سمجھئے شیطان کی چالوں سے اپنے نفس کی حفاظت کیجئے اور اپنی طلب کو طلب کے درجے سے بڑھنے سے بچائیے
تا کہ جب رب العالمین کی رحمت اپنے بندے کو پکارے کو انسان کو اس کی پکار سنائی دے ۔ جب رحمت العالمین (صلی اللہ علیہ وسلم) کے فرامین کی صدا بلند ہو تو انسان کا نفس اسے سن کر اپنا قبلہ درست کر سکے۔ اپنے آپ کو رحمان کے اور سیرت النبی (صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے پر قائم رکھنے اور اپنے اندر کے منصف کو زندہ رکھنے کے لیے
نفس کے خلاف جہاد اتنا ہی ضروری ہے جتنا شیطان کے خلاف ضروری ہے۔ شیطان سے جہاد، رحمن کا راستہ سمجھنے کے لئے ضروری ہے اور نفس سے جہاد، رحمن کے راستے پر قائم رہنے کے لیے ضروری ہے محفوظ رہیے ہر طلب کو ہوس میں بدلنے سے۔ فیصلہ آپکا۔