آج کے کالمزفیچر کالمزکالمز

کاش میرا گاؤں بھی رائے ونڈ روڈ پر واقع ہوتا

کاش میرا گاؤں بھی رائے ونڈ روڈ پر واقع ہوتا

کالم نگار: محمد رزاق امن وٹو:پی این پی نیوز ایچ ڈی

ہمارے پیارے ملک پاکستان کا ایک مستقل قومی مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں ترقیاتی کام ہمیشہ یا تو نا مکمل رہتے ہیں، یامکمل ہو کر بھی اُدھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر کہیں کوئی سڑک بچھائی جائے تو وہ ایک آدھ برسات کا مقابلہ نہیں کر پاتی، اور اگر نالی یا بازار کی کوئی مرمت کی جائے تو جیسے محض تصویریں لینے کے لیے کی گئی ہو۔ افسوساس بات کا نہیں کہ کام خراب ہوتا ہے، افسوس تو اس بات پر ہے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ کام خراب ہوگا، پھر بھی چپ چاپ تماشائی بنے رہتے ہیں۔

سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ گرانٹ تو ہر حلقے میں جاتی ہے، مگر استعمال صرف وہاں ہوتا ہے جہاں سیاسی مسکراہٹیں موجود ہوں۔ گویا عوامی فنڈز اب سیاسی رشوت کا روپ دھار چکے ہیں۔ وہ گاؤں جہاں کا ایم پی اے یا ایم این اے خوش ہو، وہاں تو نالیاں سونے کی بن جائیں گی، لیکن جہاں کے لوگوں نے ووٹ کسی مخالف کو دے دیا ہو، وہ علاقہ شاید اگلی صدی میں بھی خچر اور بیل گاڑیوں کے دور میں ہی جیے گا۔

سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ترقی، منصوبہ بندی اور سہولتیں، سب کچھ سیاسی خوشنودی سے مشروط ہو چکا ہے۔ جو حلقہ حکمرانِ وقت کی انگلی چوم لے، وہاں اسکول، اسپتال، کھیل کے میدان، سولر لائٹس سب پہنچ جاتے ہیں۔

اور جو حلقہ سوال کرنے کی جرأت کرے، وہ اپنے حصے کے بجلی کے کھمبے بھی دوسرے علاقوں میں لگتے دیکھتا ہے۔ اب ترقی حق نہیں، ایک انعام ہے — وہ بھی صرف خاص بندوں کے لیے۔
صورتحال کی سنگینی اُس وقت اور زیادہ کھل کر سامنے آتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ کئی گاؤں بڑے شہروں سے محض دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہوتے ہیں، مگر ترقی کے معاملے میں گویا سینکڑوں میل دور ہیں۔ ان علاقوں کی حالت نہ شہری ہے نہ دیہی، بلکہ ایک عجیب سی بے بسی میں لٹکی ہوئی ہے۔ شہر والوں کے لیے یہ علاقے محض مضافات ہیں، اور دیہی انتظامیہ کے لیے شہر کے قریب ہونے کی سزا۔

ایک سادہ مگر انتہائی مؤثر تجویز یہ ہے کہ شہر کے دس کلومیٹر کے دائرے میں آنے والے تمام دیہی علاقوں کو اربن ایریا میں شامل کر دیا جائے تاکہ وہ بلدیاتی نظام کے تحت براہِ راست ترقیاتی عمل کا حصہ بن سکیں۔ جب یہ علاقے انتظامی لحاظ سے بھی شہری علاقوں میں شامل ہو جائیں گے تو سڑک، نالی، بجلی اور صفائی کے معاملات پر کوئی ٹھوس اور مستقل نظام نافذ کیا جا سکے گا۔ فی الحال ان علاقوں کا حال یوں ہے کہ نہ یہ گاؤں کی سہولتوں میں آتے ہیں اور نہ شہر کی توجہ میں۔ گویا ان کی قسمت پر ایک مستقل سائل ہونے کی مہر ثبت ہے۔

اگر ہم پنجاب کی مثال لیں، جو آبادی اور وسائل کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے، تو یہاں بھی یہی کھیل برسوں سے جاری ہے۔ کچھ حلقے تو ترقی کے قلعے بن چکے ہیں، جہاں ایک ہی گلی تین بار پکی ہو چکی ہے، اور کچھ ایسے ہیں جہاں سے آج تک کوئی ٹھیکیدار راستہ تک نہیں پوچھتا۔ شاید ان لوگوں کا جرم یہ ہے کہ وہ صرف شہری ہونے کا شوق رکھتے ہیں، سیاسی غلام بننے کا نہیں۔

ترقیاتی فنڈز کی تقسیم ایک قومی امانت ہے، اور اس امانت کو ذاتی جاگیر بنانے والوں سے اب سوال ہونا چاہیے۔ ہر کے نمائندے، معززین، نمبردار اور مقامی کمیٹیاں باقاعدہ طور پر مشاورت کے ذریعے یہ طے کریں کہ کس علاقے کو کن سہولتوں کی فوری ضرورت ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے بعد ان کی دیکھ بھال کے لیے ایک فعال نظام موجود ہو۔ صرف تختی لگانے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں، اور نہ ہی تصاویر کھنچوانے سے عوام کا معیارِ زندگی بہتر ہوتا ہے۔

ریاست اگر واقعی ماں جیسی ہے تو پھر ماں کو چاہیے کہ سب بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھے — نہ کہ صرف اُن پر جو اس کے قدم چومیں۔ ورنہ باقی بچے ضدی، نافرمان، اور پھر باغی بھی ہو سکتے ہیں۔
ترقی کا حق کسی ووٹ یا واسطے سے مشروط نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اُس کسان کا بھی حق ہے جو روز سورج کے ساتھ جاگتا ہے، اُس بچے کا بھی جو گندے پانی میں سے گزر کر اسکول پہنچتا ہے، اور اُس بیمار ماں کا بھی جو دوائی کے بجائے دعاؤں پر زندہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ووٹ تو دیتے ہیں، مگر بدلے میں صرف وعدے وصول کرتے ہیں۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم وعدوں کی سیاست کو دفن کر کے عمل کی حکمرانی کو جگہ دیں۔ ترقی کو ایک نعمت سمجھ کر، اس کا استعمال ایمانداری سے کیا جائے، نہ کہ ایک سیاسی ہتھیار کی طرح۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے