Expressing love for the Prophet ﷺ is an essential part of faith 246

نبی کریم ﷺ سے محبت کا اظہار ایمان کا کا لازمی جزو ہے تحریر :حاجی ناصر قادری

نبی کریم ﷺ سے محبت کا اظہار ایمان کا کا لازمی جزو ہے.نبی کریم خاتم النبینﷺ سے عقیدت اور محبت کا اظہار ہمارے ایمان کا لازمی جز ہے۔ آقا دوجہان اس ماہ مقدس میں دینا میں تشریف لائے ۔ ربیع الاول کا مقدس مہینہ مسلمانوں کیلئے اک خوشی کا مہینہ ہے ۔ ہمیں سیرت نبی پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔اپنے دلوں کو عشق رسول سے منور کرنا ہوگا۔
ربیع الاول کا مقدس مہینہ مسلمانوں کیلئے اک خوشی کا مہینہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں سیرت نبی پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔اپنے دلوں کو عشق رسول سے منور کرنا ہوگا۔امت پر رسول اللہ کے حقوق میں ایک اہم حق آپسے محبت کرنا ہے اور ایسی محبت مطلوب ہے جو مال و دولت سے، آل اولاد سے بلکہ خود اپنی جان سے بھی بڑھ کر ہو۔ یہ کمال ایمان کی لازمی شرط ہے۔ آدمی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے نزدیک رسول کریم کی ذات گرامی ماں باپ سے، بیوی بچوں سے اور خود اپنی جان سے بھی بڑھ کر محبوب نہ بن جائے۔ یہ حبِ نبویؐ دین کی بنیاد اور اس کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
” آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جسے تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول() سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے، اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔” (التوبہ 24 ) ۔
والدین، بیوی بچے، مال و دولت اور خاندان و قبیلہ وغیرہ ان سب کی محبت فطری ہے اور اللہ کی طرف سے انسانی فطرت میں ودیعت ہے۔ آیت بالا میں اس کی نفی نہیں بلکہ اس بات کا مطالبہ ہے کہ ان سب چیزوں کی محبت سے زیادہ اللہ و رسول سے اور اللہ کے دین سے محبت ہونی چاہئے اور یہ ایسی لازمی و ضروری چیز ہے کہ اس کے نہ ہونے کی صورت میں سخت وعید ہے کہ اللہ کا عذاب بھی آسکتا ہے نیز آیت کے اخیر میں یہ کہہ کر کہ ” اللہ فاسق قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔” اس طرف اشارہ فرما دیا کہ ایسے لوگ جو اللہ و رسول کو سب سے زیادہ محبوب نہیں رکھتے وہ فسق و گناہ میں مبتلا، راہِ حق سے ہٹے ہوئے اور ہدایتِ الٰہی سے محروم ہیں۔ مومن کیلئے نبی کریم سے محبت کس درجہ اہم اور ضروری ہے ؟ احادیث سے بھی اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ نبی کریمنے اس کو ایمان کی بنیاد قرار دیا۔ سیدناابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
” اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اس کی اولاد سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔”(صحیح بخاری) ۔
سیدنا انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہنے ارشاد فرمایا ” کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے اہل وعیال، اس کے مال اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔” (صحیح مسلم)۔
ایک اور روایت سیدنا عبداللہ بن ہشامؓ اس طرح نقل کرتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ نبی کریمکے ساتھ تھے اور آپ سیدنا عمر بن الخطابؓ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ سیدناعمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ()! یقینا آپ ()مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں سوائے میرے نفس کے جس پر نبی کریم نے ارشاد فرمایا:
” نہیں، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے یہاں تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہارے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہوجاؤں۔” یعنی اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔زبانِ رسالتؐ سے یہ بات سننی تھی کہ سیدنا عمر ؓ نے عرض کیا ” ہاں! اللہ کی قسم ، اب آپ () مجھے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔”
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا ” ہاں اب اے عمر۔” یعنی اب تمہارا ایمان مکمل ہوا(صحیح بخاری)۔
یہ تمام روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ہر بندۂ مومن کو رسول اللہ سے ضرور محبت ہونی چاہئے اور یہ محبت دنیا کی تمام محبوب چیزوں سے حتیٰ کہ اپنی عزیز جان سے بھی بڑھ کر ہونی چاہئے۔ جب تک کوئی شخص اس معیار پر پورا نہ اترے، اس کا ایمان بھی مکمل نہیںہوسکتا۔ صحابہ کرامؓ نے اپنی ذات سے بڑھ کر رسول اللہ سے محبت کی ایسی مثالیں پیش کیں کہ عقلِ انسانی حیران رہ جاتی ہے اور تاریخ کسی اور شخص کے بارے میں ایسی مثالیں پیش کرنے سے قاصر ہے۔ سیدنا علیؓ سے کسی نے دریافت کیا کہ رسول اللہکے ساتھ آپ لوگوں کی محبت کیسی ہوتی تھی؟ سیدنا علی ؓ نے جواب دیا ” اللہ کی قسم! رسول اللہ () ہمیں مال و الاد اور ہمارے ماں باپ سے زیادہ محبوب تھے اور اس سے زیادہ محبوب تھے جتنا کہ شدید پیاس کے وقت ٹھنڈا پانی ہوتا ہے۔”
کتبِ سیرت میں صحابہ کرام ؓ کی رسول اللہ سے بے پناہ محبت، جانثاری اور فداکاری کے بے شمار واقعات موجود ہیں، چند مثالیں یہاں پیش کی جاتی ہیں۔
*زید بن وثنہؓ کو کفار نے پکڑ لیا اور انہیں قتل کرنے کے ارادے سے حرم سے باہر لے چلے۔ راستہ میں ابو سفیان نے (جو اس وقت تک اسلام نہ لائے تھے) ان سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، بتاؤ کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری جگہ محمد( ) کو (نعوذ باللہ) پھانسی دی جاتی اور تم گھر میں آرام سے رہتے؟ زید بن وثنہ ؓ جواب دیا:
” اللہ کی قسم! مجھے ہرگز یہ بات بھی گوارہ نہیں کہ میں چھوڑ دیا جاؤں اور اس رہائی کے بدلے محمد() کو اسی جگہ رہتے ہوئے جہاں آپ() اس وقت تشریف فرما ہیں کوئی کانٹا بھی چبھے۔” ،یہ سن کر ابو سفیان حیران رہ گیا اور یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ ہم نے کسی کو کسی سے ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی محبت اصحابِ محمد() ، محمد( ) سے کرتے ہیں(الہدایہ و النھایہ/ بیقی)۔
*حضرت خبیب بن عدیؓ کفار کی ایک سازش میں ان کی زد میں آگئے۔ کفار نے انہیں چند دن تک بھوکا پیاسا قید رکھا پھر انہیں سولی پر لٹکانے کیلئے ایک مقام پر لے آئے۔ تختۂ دار پر کھڑا کرنے کے بعد ان ظالموں نے کہا کہ اگر اسلام چھوڑ دو تو جان بخشی ہوسکتی ہے مگر حضرت خبیبؓ کا جواب تھا کہ جب اسلام نہ رہا تو جان رکھ کر کیا کروں؟ ظالم کفار نے نہ صرف انہیں سولی پر لٹکایا بلکہ نیزوں سے ان کے جسم کو اذیت بھی دینے لگے۔ ایک شقی القلب نے نیزہ سے جگر چھید کر کہا :اب تو تم ضرور یہ پسند کرتے ہوگے کہ میری جگہ محمد() ہوتے اور میں چھوٹ جاتا۔ یہ سننا تھا کہ سیدنا خبیبؓ نہایت جوش سے بول اٹھے ” اللہ کی قسم! مجھے یہ بھی پسند نہیں کہ میری جان بچ جائے اور اس کے عوض محمد() کے پائے مبارک میں کانٹا چبھے” (الہدایہ والنھایہ) سیدنا خبیبؓ نے عین اس وقت پر جبکہ انہیں سولی پر لٹکایا جارہا تھا چند فی البدیہہ اشعار کہے جن سے ان کے عزم و استقامت کے ساتھ اسلام اور رسول اللہ سے سچی محبت چھلکتی ہے، ان اشعار کا خلاصہ یہ ہے کہ:
” گروہ در گروہ لوگ میرے اطراف جمع ہیں۔ انہوں نے بڑی بڑی جماعتوں کو بلالیا ہے۔ یہ مجھ سے دشمنی نکالنے میں پرجوش ہیں۔ میں ہلاکت گاہ میں بندھا ہوا ہوں۔ قبیلوں نے (تماشہ دیکھنے کیلئے) عورتوں بچوں کو بھی بلا رکھا ہے۔ مجھے ایک مضبوط لکڑی کے پاس لے آئے ہیں اور مجھ سے کہا کہ کفر اختیار کرنے سے آزادی مل سکتی ہے لیکن میرے لئے تو اس سے موت آسان ہے ۔ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہیں مگر مجھے کوئی شکوہ نہیں۔ میں دشمن سے عاجزی کروں گا نہ چلاؤں گا۔ میں جانتا ہوں کہ میں اللہ کے پاس جارہا ہوں موت سے اسلئے مجھے ڈر نہیں کہ ایک دن مجھے مرنا ہے۔ میں جھلسا دینے والی جہنم کی آگ سے ڈرتا ہوں۔ اب انہوں نے خوب زدوکوب کرکے میرا گوشت کوٹ دیا ہے اور زندگی کی امید جاتی رہی۔ میں اپنی درماندگی و بے کسی کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں ۔ اللہ کی قسم! جب میں اسلام پر جان دے رہا ہوں تو مجھے اس کی پروا نہیں کہ اللہ کے راستے میں کس پہلو پر میں گرتا ہوں۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ میرے ان پارہ ہائے گوشت کے ہر ٹکڑے کو برکت عطا فرما دے۔”
سیدنا سعید بن عامر ؓ کبھی کبھی بے ہوش ہوجایا کرتے تھے۔ سیدنا عمرؓ نے وجہ دریافت کی تو عرض کیاکہ مجھے کوئی بیماری نہیں لیکن میں اس مجمع میں موجود تھا جب خبیبؓ کو سولی پر لٹکایا گیا۔ مجھے ان کی باتیں یاد آتی ہیں تو روح کانپ جاتی ہے اور بے ہوش ہوجاتا ہوں۔
*غزوۂ احد میں رسول اللہ سے بے پناہ محبت اور جانثاری کی کئی مثالیں سامنے آئیں۔ مسلم تیر اندازوں کے ا یک دستہ کی غلطی سے مسلمانوں کو وقتی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور کفار کی فوج پشت سے حملہ آور ہوئی تو ایک موقع ایسا بھی آیا کہ رسول رحمت جو سارے عالم کیلئے رحمت بن کر تشریف لائے تھے بے رحم دشمنان اسلام کے نرغہ میں آگئے۔ اس وقت آپکے قریب چند جانثار صحابہ کرام ؓنے اپنے ہاتھوں اور اپنے سینوں سے ڈھال کا کام کیا۔
آپ کی طرف آنے والے ہر تیر کو وہ ہاتھ اور سینے سے روکتے رہے۔ سیدنا ابو طلحہؓ نے 70 سے زیادہ تیر اپنے ہاتھ اور سینے سے روکے ۔ ان شدید زخموں کے سبب ان کا ہاتھ ہمیشہ کیلئے شل ہوگیا تھا۔ ایک موقع پر جب رسول اللہ نے نظر اٹھاکر دیکھا تو سیدنا ابو طلحہؓ جو آپ کیلئے ڈھال بنے ہوئے تھے کہنے لگے: یا رسول اللہ () !میرے ماں باپ آپ()پر قربان، آپ()نظر نہ اٹھائیں، کہیں ایسا نہ ہوکہ دشمن کا کوئی تیر آپ() تک پہنچ جائے، میرا سینہ آپ() کیلئے حاضر ہے۔ یعنی جب تک مجھ میں جان ہے آپ تک دشمن کا کوئی تیر نہیں پہنچ سکتا۔
اس موقع پر سیدنا ابو دجانہؓ نے بھی رسول اللہ کی محبت میں آپ کی حفاظت کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ وہ آپ پر جھک کر اس طرح ڈھال بن گئے کہ دشمنوں کے تیر ان کی پیٹھ میں پیوست ہونے لگے لیکن وہ ذرا حرکت نہ کرتے تھے کہ کہیں کوئی تیر رسول اللہ تک نہ پہنچ جائے۔
*اسی غزوۂ میں رسول اللہ کی شہادت کی افواہ بھی پھیل گئی۔ یہ خبر جب مدینہ پہنچی تو ایک انصاری خاتون بے اختیار میدانِ احد کی طرف نکل پڑیں ۔ اس غزوہ میں اس عورت کے باپ، بھائی ، بیٹا اور شوہر سب شہید ہوگئے تھے۔ وہ جب ان پر سے گزرتی تو لوگ یکے بعد دیگرے اسے خبر دیتے کہ یہ تمہارا باپ ہے، یہ بیٹا، یہ بھائی اور یہ تمہارا شوہر ہے لیکن وہ ہر مرتبہ بے چینی سے پوچھتی کہ رسول اللہ() کس حال میں ہیں؟ وہ کہتے کہ آپ() آگے ہیں، وہ کہتی کہ مجھے دکھاؤ کہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں۔ جب چہرۂ مبارکؐ پر نظر پڑی تو بے اختیار کہنے لگی: یا رسول اللہ () !میرے ماں باپ آپ() پر قربان، آپ () سلامت موجود ہیں تو ہر مصیبت ہیچ ہے (سیرت ابن ہشام)۔
*مدینہ منورہ میں رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی تھا لیکن ان کے بیٹے سیدنا عبداللہ مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے ۔ وہ مخلص و صادق اہل ایمان میں سے تھے اُن پر اپنے والد کا نفاق بھی ظاہر تھا۔
ایک مرتبہ مدینہ میں یہ افواہ پھیل گئی کہ رسول اللہ نفاق کی وجہ سے عبداللہ بن ابی کے قتل کا حکم دینے والے ہیں۔ یہ خبر جب ان کے لڑکے سیدنا عبداللہ تک پہنچی تو رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا:
” یا رسول اللہ ()! اگر آپ() چاہیں تو اپنے باپ (عبداللہ بن ابی) کا سر کاٹ کر آپ() کی خدمت میں پیش کردوں ” لیکن آپ نے منع فرما دیا کہ آپدشمنوں کیلئے بھی شفیق و مہربان تھے اور ان کی ہدایت کیلئے فکر مند رہا کرتے تھے۔ ایک صحابی فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ() اہل و عیال سے بھی زیادہ محبوب تھے۔ جب کبھی آپ() کی یاد آتی تو میں گھر میں ٹک نہیں سکتا تھا جب تک کہ آپ() کی خدمت میں آکر آپ() کو دیکھ نہ لیتا، تسلی نہ پاتا۔
صحابہ کرامؓ کی رسول اللہ سے بے پناہ محبت اور جانثاری کی بے نظیر مثالیں سیرت میں موجود ہیں جن سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ اہل ایمان سے جس محبتِ نبویؐ کا مطالبہ کیا گیا تھا ان کے نزدیک رسول اللہ ماں باپ، اولاد اور اپنی جانوں سے بھی زیادہ محبوب ہوں۔ یقینا صحابہ کرامؓ نے رسول اللہسے ایسی ہی محبت کرکے دکھائی۔ ان کے ہاں صرف محبت اور عشق رسول کے دعوے نہیں تھے بلکہ عمل سے وہ اس کا ثبوت بھی فراہم کرتے تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں