ہر اس پاکستانی کی توجہ کے لئے جو اردو کو سانحہء بنگلادیش کی وجہ گردانتا ہے!
سقوط بنگلہ دیش کی وجہ اردو ہر گز نہیں یہ سانحہ سیاستدانوں کی ہوس اقتدار کا نتیجہ ہے.
مجیب نے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں
162 میں سے 160 نشتیں حاصل کی۔ اور بھٹو نے 138 میں سے 84 نشستیں حاصل کی اس طرح مجیب کو انتخابات میں سادہ اکثریت حاصل ہوگئی تھی ۔ اقتدار پر فائز ہونا مجیب کا جمہوری حق تھا۔ اگر قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوجاتا تو ملک کے کبھی بھی دو لخت نہ ہوتا! لیکن جمہوریت کے لبادے میں آمریت کا روپ دھارے ہوئے مکر و فریب سے بھر پور سیاستدان نے کہا کہ مشرقی پاکستان سے آنے والے اراکین اسمبلی کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی اگر وہ اجلاس میں شریک ہوئے”
یہ وجہ تھی ملک ٹوٹنے کی!
مجیب کے چھ نکات جنہیں پاکستان توڑنے کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ اسکے کسی ایک نکتے میں بھی اردو کاذکر نہیں ھے نہ اکہتر کی کسی سیاسی جماعت کے انتخابی منشور میں اردو کا نعرہ شامل ھے.پھر سوال یہ ہےکہ اکثریتی پارٹی کے مینڈیٹ کو تسلیم کر کے اگر
اقتدار مجیب کے حوالے کردیا جا تا تو بحیثیت وزیر اعظم مجیب قوم سےکس زبان میں خطاب کرتا اردو میں یا بنگلہ میں؟ وہی زبان استعمال کرتا جو دونوں یونٹ کو جوڑتی تھی جس میں بھٹو’ بے نظیر’ جونیجو’ جتوئی’ نوازشریف’ ظفر اللہ جمالی’ سردار فاروق لغاری قوم سے خطاب کرتے رہے ہیں۔
یاد رہے1956 ہی میں بنگلہ کو پاکستان کے آئین میں ثانوی قومی زبان کی حیثیت حا صل ہو گئی تھی. پھر دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر مشرقی بنگال کے لوگوں کو بنگلہ سے اتنا ہی پیا ر تھا کہ انہوں نے اس کو بنیاد بنا کر بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی. اس طرح کی تحریک مغربی بنگال ( بھارت) میں کیوں نہ چلی.؟کیوں مغربی بنگال آج بھی انڈیا کا حصہ ھے؟
معزز اہل وطن!
یا د رکھیں!
بنگلہ دیش کی علحیدگی کی وجہ صرف اور صرف سیاستدانوں اور جرنیلوں کی ہوس اقتدار اور خبث باطن’ بھارت کی سازشوں’مکرفریبیوں کی وجہ سے ہوا! اندرا گاندھی بنگلہ دیش کے قیام کو اپنا بہت بڑا کارنامہ قرار دیتی رہی۔ یہی دعوی مودی کی بی جے پی کا بھی ہے!
اور یہ بھی یادرہے کہ قائد اعظم نے بنگالیوں پر اردو مسلط نہیں کی تھی دستور’ ساز اسمبلی فروری 1948 میں ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے سے اردو کو متحدہ پاکستان کی سرکاری زبان تسلیم کرچکی تھی’ قائد اعظم نے مارچ 1948 میں صرف دستور ساز اسمبلی کی اس قرارداد کی توثیق کی تھی انہوں نے کہاتھا کہ صوبوں کو اختیار ہے کہ وہ اپنے صوبوں میں رابطے کے لئے جو مرضی زبان استعمال کریں لیکن پورے ملک کے رابطے کی زبان اردو’ اردو’ اور صرف اردو ہوگی۔” قائد اعظم کی یہ تقریر یو ٹیوب پر موجود ہے بنگالی رہنماؤں خواجہ ناظم الدین’ اے کے فضل الحق’ حسین شہید سہروردی نے قائدا عظم کے اس حکم کی بھرپور تائید کی۔ مشرقی پاکستان میں بنگلہ کو قومی زبان بنانے کا قضیہ کھڑا کرنے والا ایک ہندو جوگندر نارھ منڈل تھاجس نے بھارت کے اشارے پر یہ فساد کھڑا کیا اور جب 1956 میں بنگلہ کو دوسری قومی زبان کا درجہ مل گیا تو یہ ہندو جوگندر ناتھ منڈل انڈیا دفعان ہوگیا۔ حیرت ہے کہ مغربی بنگال میں اس نے ایساکوئی مطالبہ نہیں کیا۔ مجیب الرحمٰن نے اپنی انتخابی مہم اردو و بنگلہ میں اسی طرح لڑی تھی جیسے بھٹو نے اپنی انتخابی مہم سندھی و اردو میں لڑی۔ مجیب ‘ محترمہ فا طمہ جناح کا پولنگ ایجنٹ بھی رہا ہے اور محترمہ فآ طمہ جناح سے اردو ہی میں بات کرتا تھا یو ٹیوب پر اس کی انتخابی مہم کی تقاریر موجود ہیں!
بنگالی آج بھی نہ صرف اردو سمجھتے ہیں’ بولتے بھی ہیں۔ وہاں اکثر وبیشتر اردو کے مشاعرے بھی منعقد ہوتے ہیں۔ مشرقی بنگال کے لوگ اردو سمجھتے تھے ‘ بولتے تھے۔ لیکن
مغربی پاکستان کے لوگ بنگلہ سے نا واقف تھے اس لئے دونوں حصوں کو جوڑنے والی زبان صرف اردو تھی۔ میں نے حرم شریف میں ہم نے خود بنگالیوں سے اردو میں بات چیت کی ہے۔وہ آج بھی اردو سمجھتے ہیں ‘ اور بول بھی لیتے ہیں۔
252