ملتا ن کی ڈاکٹر قراة العین اور ان کے شوہر نے جھیل میں ڈوبنے والے بچے کی جان بچانے کا پورا واقعہ بیان کر دیا 248

ملتا ن کی ڈاکٹر قراة العین اور ان کے شوہر نے جھیل میں ڈوبنے والے بچے کی جان بچانے کا پورا واقعہ بیان کر دیا

رپورٹ ملتا ن : عمر دراز جوئیہ (تازہ اخبار ،پی این پی نیوز ایچ ڈی)

ملتان کی ڈاکٹر قراة العین اور ان کے شوہر گلگت بلتستان کے علاقے نلتر جھیل میں ڈوبے بچے کیلئے فرشتہ ثابت ہوئے ،دونوں میاں بیوی نے بچے کی جان بچانے کا سارا واقعہ بیان کر دیا۔
ڈاکٹر قراة العین کے شوہر اسرار نے بتایا کہ ہم 17ہزار فٹ کی بلندی پر سترنگی جیل سے گزر رہے تھے جب ہم نے نلترنالے کے قریب لوگوں کو جمع دیکھا جو شورو غل کر رہے تھے ہم نے نیچے اتر کر دیکھنے کا فیصلہ کیا اور جب ہم نے اتر کر نیچے دیکھا تو 2بچے جن میں سے ایک کی عمر14سال جب کہ دوسرے کی عمر تقریب 16سال تھی وہ اس نالہ نما جھیل میں گرے ہوئے تھے اور ان میں سے ایک کو جھیل میں سے نکالا جا رہا تھا اور اس کے لواحقین اسے مردہ سمجھ کر بین کر رہے تھے ،ان لوگوں سے کہا کہ اسے ندی سے اوپر لے کر آئیں کیونکہ ہم اتنا نیچے نہیں جا سکتے ابھی تک ڈاکٹر قراة العین کو کچھ علم نہیں تھا کہ گاڑی سے باہر کیا ہو رہا ہے اور پھر میں نے ڈاکٹر صاحبہ سے کہا کہ انہیں آ کر دیکھنا چاہیے کیونکہ انہیں ہماری ضرورت ہے اور پھر ڈاکٹر صاحبہ باہر آئیں.
ڈاکٹر قراة العین نے بتایا کہ جب میں گاڑی سے نکل کر بچے کے پاس آئی تو بچے کا جسم پوری طرح نیلا پڑ چکا تھا کیونکہ پانی برف نما ٹھنڈا تھا ،ڈاکٹر کے مطابق بچے کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی اس کی آنکھیں اوپر کو ہو چکی تھی ،بچے کی نبض نہیں چل رہی تھی اور نہ ہی بچے کا دل کام کر رہا تھا ،ہمیں یہ تک معلوم نہیں تھا کہ بچے کو پانی میں ڈوبے کتنی دیر ہو چکی ہے لیکن تمام علامات دیکھ کر اندازہ ہو گیا تھا کہ بچے کو پانی میں گر کافی ٹائم ہو چکا ہے.
لیکن میں نے سیکنڈز میں فیصلہ کیا کہ بچے کو سی پی آر دینی ہے جس پر میں اپنے شوہر اسرار احمد کو کہا کہ میں بچے کو دل پر دباو دوں گی آپ اسے منہ کے راستے سانس دیں اور اس کمانڈ کے بعد میں نے بچے کے دل پر دباو دینا شروع کر دیا اور شوہر نے بچے کو سانس دینا شروع کر دی ۔ 2سے 3منٹ تک بچے میں کوئی اثار نظر نہیں آئے لیکن اچانک شوہر نے بچے کو زور سے سانس دیا تو مجھے دباو کے دوران پھیپھڑوں کے پمپ ہونے کی سرکت محسوس ہوئی جس پر مجھے لگا کہ ابھی پھیپھڑوں میں جگہ خالی ہے اور ہمیں مزید سی پی آر دینی چاہیے اور مزید 3منٹ سی پی آر دینے سے بچے کے جسم میں حرکت پیدا ہوئی پہلے بچے نے آنکھیں سیدھی کیں پھر ہاتھوں کی انگلیوں نے حرکت کرنا شروع کی اور پھر آہستہ آہستہ بچے نے حوش میں آنا شروع کر دیا اور جب مجھے لگا کہ بچے کی حالت اب خطرے سے باہر ہے تو میں نے بچے کو خاندان والوں کے حوالے کیا اور کہا کہ بچے کے گیلے کپڑے تبدیل کریں اور اسے گرم کریں کیونکہ بچے کو گرمائش کی ضرورت تھی.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں