کیا تم سنتے ہو!
میں نے سن لی ہے
وہ اک موہوم سی سرسراہٹ
جو موت کے فرشتے نے
قدم رکھتے ہی مہمیز کی تھی
ساحل صبح دم
ویراں سا تھا
کچھ تنہا
سوگوار
کتنا تکلیف دہ ہے
یہ جاننا بھی
کہ ساری عمر
ہم غلط گزرے
ہر شاہراہ سے
ہر راستے سے
وہ جن راہوں پہ
جیون لٹایا
ہمارے لیے نہ تھیں
کتنا تکلیف دہ ہے
یہ جاننا بھی
وہ جن پہ ہم نے
جاں کو لٹایا
خسارہ کمایا
اجنبی تھے
ہمارے نہ تھے
پرندوں کو سننا
انہیں دیکھنے سے
بہتر لگا ہے
پر پھڑپھڑائیں
دام میں پھر بھی آئیں
مگر وقت رخصت
سچ کھولتے ہیں
کوئی فیصلہ
جب یہ کر لیں
تبھی بولتے ہیں
نمیرہ محسن
ستمبر 2022
270