Decision in the case of dismissal of government employees 222

16 ہزار سرکاری ملازمین کی برطرفی کیس کا فیصلہ کل سنایا جائے گا

اسلام آباد (رپورٹ : زبیر خان بلوچ ،تازہ اخبار،پاک نیوز پوائنٹ )

سپریم کورٹ نے سولہ ہزار ملازمین کی برطرفی سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ، محفوظ فیصلہ کل سنایا جائے گا.تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سولہ ہزار ملازمین کی برطرفی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے
اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ دی گئی تجاویز میں دو وضاحتیں پیش کرنا چاہتا ہوں، مس کنڈکٹ یا غیر حاضری پر برخاست ملازمین پرہماری تجاویز کا اطلاق نہیں ہوگا، تمام ملازمین کے وکلاحکومتی تجاویز کی حمایت کرتے ہیں تو ان پر عمل ہو گا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ملازمین کے وکلاکو حکومتی تجاویز پراعتراض ہے توہم واپس لےلیں گے، اگر عدالت نظر ثانی منظور نہیں کرتی تو تجاویز برقرار ہیں، عدالت سے استدعا یہی ہے کہ نظر ثانی درخواستیں منظور کرے،جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ آپ نے کہا گریڈ 1سے 7کیلئےزیادہ قابلیت درکار نہیں جبکہ ہماری نگاہ میں گریڈ1 سے 7 ملازمین کو بھی مقابلے پر نوکری ملے، ہم آئین،قانون کےتحت عوام کی فلاح پرہی چلیں گے۔
جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ کوئی پچھلا دروازہ قبول نہیں کر سکتے، سیکڈایمپلائزایکٹ 2010 پہلےسے طےشدہ اصولوں کےبرخلاف تھا ، اس پر زیادہ تبصرہ کرنا نہیں چاہے، جس پراٹارنی جنرل نے کہا ایکٹ 2010 ازخودغلطی کودرست کرنے کی نشاندہی کرتا ہے۔
سپریم کورٹ نےاٹارنی جنرل کوسیکڈامپلائزایکٹ پردلائل کاایک اورموقع دے دیا، جسٹس عمرعطابندیال نے مکالمے میں کہا مسٹراٹارنی جنرل،دماغ میں رکھیں کہ موجودہ کیس کارنگ بدل چکا، موجودہ کیس نظرثانی کاہےمگرنئےسرےسےتشریح شروع کی۔
فاضل جج کا کہنا تھا کہ ملازمین کےکیس میں بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے، آرٹیکل 184 تھری کااچھا کیس تھا،مگرمرکزی کیس میں اطلاق ہو چکا اور سپریم کورٹ آئین کی پابند ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ عدالت30سال سےبھرتیوں کے طریقہ کار پرعمل کرارہی ہے، اٹارنی جنرل صاحب تجاویز جانیں اورملازمین جانے، عدالت صرف قانون کو دیکھےگی، یقینی بنائیں گے کوئی چور دروازےسےداخل نہ ہو سکے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ یقینی بنائیں گےآئینی اداروں میں کوئی غیر آئینی طریقے سے داخل نہ ہو، اٹارنی جنرل کی جانب سےایکٹ پر ٹھوس دلائل کےخواہش مند تھے ، ملازمین 1997 سے 1999 کے درمیان نکالے گئے، ملازمین نے دس گیارہ سالوں میں نئی ملازمتیں یاکام بھی کیے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید ریمارکس دیئے کہ قانون ریاست کےدیے گئے قوانین کا محافظ ہوتا ہے، ایکٹ پر معاونت کی توٹھیک ورنہ عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی، موجودہ کیس نظر ثانی کی حدود سے باہر نکل چکا ہے۔
سپریم کورٹ نے سولہ ہزار ملازمین کی برطرفی سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ، جسٹس عمر عطابندیال نے کہا فیصلہ کل سنائیں گے۔
اٹارنی جنرل کا دلائل میں کہنا تھا کہ عدالت 2010 کے قانون کو مختلف انداز سے دیکھے، قانون خلاف ضابطہ برطرفیاں واپس لینےکے قانون کے طور پر پڑھا جائے، اس انداز میں قانون کو دیکھنے سے اسے برقرار رکھا جا سکتا ہے، قانون کو اس انداز میں پڑھنے سے ملازمین 1997 والی سطح پربحال ہوجائیں گے۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ملازمین کی 96-1993تک ہوئی بھرتیاں کسی نے چیلنج نہیں کی تھیں،یہ تعین کہیں نہیں ہوا کہ ملازمین کی بھرتیاں قانونی تھیں یا نہیں، بحالی کے قانون میں ملازمین کو اگلےگریڈ میں ترقی دی گئی تھی، عدالت قانون بحال کرتے ہوئے اگلے گریڈ میں ترقی نہ دے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا اٹارنی جنرل مفروضوں پر بات کر رہے ہیں،متعلق ادارے ہی اس حوالے سے اصل صورتحال بتا سکتے ہیں ، اگر کسی کی پروموشن جاتی ہے تو 6ہزار ساتھیوں کیلئے قربانی دے دیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں