(سٹاف رپورٹ ،کوئٹہ ،تازہ اخبار،پاک نیوز پوائنٹ )
کوئٹہ میں 200 سے زائد نوجوان لڑکیوں کو نوکری اور روزگار کا جھانسہ دے کر نشے کا عادی بنا کر انہیں تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر برہنہ ویڈیوز بنانے اور بلیک میل کرنے والے گروہ کا سرغنہ، بدنامِ زمانہ ڈرگ ڈیلر حبیب اللہ کا بیٹا سابقہِ کونسلر ہدایت خلجی کو گرفتار کر لیا گیا.ہدایت خلجی نامی درندے نے یہ گھنانا کھیل بلوچستان یونیورسٹی کی طالبات سے شروع کیا، سینکڑوں طالبات کو اپنے پیسے اور سیاسی اثرورسوخ کا استعمال کرکے نوکری کا لالچ دیا اور انہیں نشہ کی لت میں ڈال کر نازیبا ویڈیوز بنائیں جن کے ذریعے بعد میں انہیں بلیک میل کرکے اپنے گھنانے مقاصد کے لیے استعمال کرتا رہا، اس سارے گندے کھیل میں اسے بااثر سیاسی افراد کی پشت پناہی حاصل رہی جن کے پاس لڑکیوں کو بھیجا جاتا تھا اس لیے بھی اس کے خلاف کبھی کوئی خاص کاروائی نہیں ہوئی.
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں لڑکیوں کو ملازمت کا جھانسہ دے کر مبینہ طور پر ریپ کرنے اور ویڈیو بنانے کے الزام میں گرفتار ملزمان ہدایت اللہ خلجی اور ان کے بھائی خلیل خلجی سے پولیس کی تفتیش جاری ہے اور دونوں کو جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر سنیچر کو مقامی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
پولیس حکام کے مطابق ملزم کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون کا ڈیٹا تجزیے کے لیے پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری لاہور بھیجا گیا ہے جس کی رپورٹ کا انتظار ہے.
پاکستان میں سوشل میڈیا پر اس حوالے سے کئی ٹرینڈز گردش میں ہیں جن میں بعض صارفین نے یہ دعویٰ کیا کہ ملزمان نے 200 لڑکیوں کو ریپ کیا اور یہ ایک بڑا گینگ ہے.
بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ جام کمال نے بھی ویڈیو سکینڈل پر ٹویٹ کیا اور وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو سے تفتیش کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے کر ملوث عناصر کی گرفتاری کا مطالبہ کیا.
ڈی ایس پی قائد آباد کوئٹہ سید عاصم علی شاہ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’200 لڑکیوں سے ریپ کی بات افواہ ہے۔ یہ اصل مقدمے سے توجہ ہٹانے یا مختلف برادریوں کو بدنام کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے.
انہوں نے بتایا کہ ’ملزمان سے جو ریکوری کی گئی ہے اس کے مطابق یہ چار سے پانچ لڑکیاں ہیں جن کی ویڈیوز بنائی گئی ہیں.
ڈی ایس پی عاصم شاہ کے مطابق اب تک کی تفتیش میں جو چیزیں سامنے آئی ہیں ان میں چند ویڈیوز ہیں جن میں چار سے پانچ متاثرہ لڑکیاں ہیں۔
اردو نیوز نے جب پوچھا کہ یہ ویڈیوز کس عرصے کی ہیں تو ڈی ایس پی عاصم شاہ کا کہنا تھا کہ ’یہ گذشتہ دو سے تین برس کے دوران کی ہیں.
317