(تحریر : صائمہ رحمان ، پاک نیوز پوائنٹ )
بدعنوانی کی سیاست ایک عالمی مسئلہ ہے۔ پاکستان خود ایک ایسے بحران میں ہے کہ اس کا مجموعی سیاسی، انتظامی، قانونی، سماجی اور معاشی نظام عدم شفافیت کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ یا ریاست شفافیت کی بنیاد پر اپنی تمام ٹھوس پالیسیوں اور منصوبہ بندی کی بنیاد پر ترقی کر سکتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں بدعنوانی کے عروج کی ایک بڑی وجہ ہماری ریاست، انتظامی اور قانونی اداروں میں حد سے زیادہ سیاسی مداخلت ہے۔ طاقتور طبقہ سمجھتا ہے کہ اداروں کی کمزوری ان کے سیاسی کھیل کی کلید اور مفاد میں ہے۔
یہ بیماری نچلے طبقات میں بھی عام ہے۔ چھوٹی کرپشن کو رشوت بھی کہا جاتا ہے اور قانون اور انصاف اس کے خلاف سرگرم ہیں، وہی چھوٹی سی بدعنوانی نچلے طبقے کے لوگ کرتے ہیں، یہ بدعنوانی نہ تو حکومتوں کو متاثر کرتی ہے اور نہ ہی معیشت کو متاثر کرتی ہے۔ تاہم بھاری بدعنوانی معیشت اور حکومتوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔
جو تنظیم کرپٹ لوگوں کی بدعنوانی کی روک تھام اور ہمارے ملک میں کرپٹ سرمایہ کاری کو پکڑنے کے لئے کام کر رہی ہے اسے نیب کہا جاتا ہے۔ نیب کرپٹ لوگوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے جس کا میڈیا میں ذکر کیا جاتا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری کردہ کرپشن پرسیپشن انڈیکس (سی پی آئی) نے 2020 میں پاکستان کو 180 ممالک میں 124 ویں نمبر پر رکھا تھا۔ 2019 کی رپورٹ میں 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان کی درجہ بندی 120 تھی۔
نیب کے موجودہ چیئرمین جاوید اقبال کی قیادت میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارکردگی بہترین رہی ہے۔ نیب انتظامیہ کی جانب سے ادارے کو فعال بنانے کے لئے کئی اقدامات کئے گئے جن میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا نظام بھی شامل ہے تاکہ وہ میرٹ پر انکوائریوں اور تحقیقات کو سنبھال سکے اور نیب کے سینئر افسران کی اجتماعی دانش مندی سے فائدہ اٹھایا جا سکے جس سے معیار بہتر ہوا ہے۔
پاکستان میں بدعنوانی اور بدعنوانی کی سیاست کو ختم کرنے کی بات کی جائے تو دو چیزوں پر بحث ہوتی ہے۔ بدعنوانی کو ایک بڑا قومی مسئلہ ماننے کے بجائے آج کی دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ تسلیم کرنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ اس طبقے کے مطابق بدعنوانی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اسے بغیر کسی وجہ کے ایک بڑا مسئلہ بنا دیا جاتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب کرپٹ لوگوں یا بدعنوانی کو ختم کرنے کی بات آتی ہے تو سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ دانشمندوں کے ایک بڑے حصے کو سیاست، جمہوریت اور سول گورننس کی بنیاد پر نظام کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے یا اسے محض سیاسی انتقام کا رنگ دیا جاتا ہے۔
ہمیشہ یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کوئی بھی حکومت اقتدار میں آئی ہے تو ساتھ ہی کرپشن کی کہانی سنئے کو ملتی ہےاس کی بڑی وجہ تو میرٹ کا نہ ہونا ہے‘ہر سیاسی ورکر‘ایم پی اے اور ایم این اے کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بھرتی کریں‘اس طریقہ کار سے کرپشن کی ابتداء ہوتی ہے‘وزیروں کے خاص اکثر ضرورت مندوں سے بڑی رقوم لے کر ان کو ملازمت دلواتے ہیں‘ ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے لیتے ہیں اور خوب کرپشن کرتے ہیں ‘ سرکاری ملازمین اور ارکان اسمبلی سب مل کر ترقیاتی اسکیموں کے لیے الاٹ شدہ رقوم کا بڑا حصہ کمیشن کی شکل میں ہضم کر جاتے ہیں
پاکستان آگے بڑھنے کے بجائے جمہوری اور غیرجمہوری حکومتوں کے درمیان اس چکر ویو پھنس جاتا ہے جس کی وجہ سے ملک آگے بڑھنے کے بجائے ایک محدود دائرے گھومتا ہے کرپشن کے خاتمے کے نام پر مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے کے بجائے ایک ایسا فول پروف نظام متعارف کروایا جائے جس میں کرپٹ افراد کے بچنے کی گنجائش ہی باقی نا رہے پارلیمنٹ‘عدلیہ اس سلسلے میں بہتر قانون سازی کرے اورکسی ایک فرد کے جانے یا آنے سے کرپشن کا وجود ختم نہیں ہو سکتا‘چارٹر آف ڈیموکریسی پر عمل در آمد سے شاید یہ مسئلے حل ہو سکتے تھے‘ اگر عوام واقعی کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں تو پھر سرمایہ داری کو ختم کرکے ایک عوامی انقلاب برپا کرنا ہوگا‘سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہی کرپشن پر کھڑی ہے‘ البتہ بہتر قوانین نافد کر کےاس کو محدود کیا جاسکتا ہے
بدعنوانی غریب لوگ امیر یا غریب لوگوں سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں معاشرے کے تمام عناصر بھی متاثر ہوتے نظر آتے ہیں بدعنوانی سیاسی ترقی، جمہوریت، معاشی ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ عالمی سطح پر بھی بدعنوانی کا تاثر بہت زیادہ ہے۔
وجہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی اداروں کی اصلاح پر توجہ نہیں دی، نہ صرف اعلیٰ سطح پر بدعنوانی بلکہ نچلی سطح پر بھی بدعنوانی پر توجہ مرکوز کی ہے۔ہمیں بدعنوانی کے خاتمے اور اس عزم کے لئے پوری کوشش کرنی ہوگی کہ ہمیں اپنے ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہے کیونکہ بدعنوانی ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔اس بات پر سب اتفاق کرتے ہیں کہ اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے تقریبا ہر ادارے میں کرپٹ افراد موجود ہے
ہر چھوٹے سے چھوٹے ادارے میں کرپشن موجود ہے ہمارے ہر اداروں میں کرپشن کا بیج بو دیا گیا ہے کرپشن جاری و ساری ہے غریب آدمی عرصہ حیات سے تنگ سے تنگ ہوتا جا رہا ہے تمام اسٹیک ہولڈر نیب پر اعتماد نہیں
کرتے اس کی بڑی وجہ پاکستان میں سیاسی انتقام کی روایات ہے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے ریاستی اداروں کا استعمال کوئی نئی بات نہیں عالمیہ یہ ہے کہ آج تک کرپٹ اداروں کرپٹ لوگوں کا احتساب نا ہو سکا جس کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد احتساب سے اٹھ چکا ہے کرپشن کے خاتمہ کا ذریعہ مجرموں کا سزا دینا اور ان کا محاسبہ ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ بہتر قانون سازی کی جائیں اور ساتھ ساتھ عملداری بہت ضروری ہے ایسی حکمت عملی اپنائی جائے کرپٹ افراد بچ نا سکے ایسا ہی کر کے کرپٹ نظام کا خاتمہ ممکن ہے.کرپشن کے خاتمے لئے شعور کی بیداری ضروری ہے مگر اس کے اتدارک کے لئے مربوط حکمت عملی ترتیب دی جائے اس کے بعد متبادل نظام ، مضبوط ادارے اتفاق رائے کے ساتھ اور احتساب کے عمل کو یقینی بنایا جائے صرف یہ کہے دینا مناسب نہیں کہ احتساب کا عمل تیز کیا جائے کسی کو نہیں چھورا جائے گا لوگوں کو احتساب ہوتا نظر آنا چاہئے
کسی بھی ملک و قوم کی تباہی میں کرپشن کا بنیادی کر دار آتا ہے جب ذاتی مفادات قومی مفادات پر توجہ دی جاتی ہے کرپشن ٗبد عنوانی پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ عالمئُ مسئلہ بن چکا ہےکرپشن اعلیٰ اقدار کی دشمن ہے، جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ کر اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے چاہے یہ کسی بھی صورت میں ہو، جس قوم میں جتنی زیادہ کرپشن ہو وہ قوم اتنی ہی جلدی بربادی کے دھانے پر پہنچ جاتی ہے اور وہاں معاشی نظام بھی متاثر ہوتا ہے میرٹ کا نظام تبا ہ ہو کر رہے جاتا ہے
کرپشن و بد عنوانی کو کنٹرول کرنے کے لئے سنجیدہ حکمت عملی نہ بنائی گئی تو 2025 تک مُلک کا شمار اخلاقی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی لحاظ سے دنیا کے سب سے زیادہ تباہ حال ممالک میں ہوگاہمیں ہر ایک کو اپنا احتساب خود کرناچاہیےاور اپنی اصلاح خود کرنی چاہیے کرپشن کے نقصانات کے حوالہ سے شعور بیدار کرنا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے
صرف دعووں وعدوں نعروں سے ایک دوسرے پر الزمات لگانے سے مسائل کے حل نہیں نکلتے بلکےلوگوں کا احتساب پر اعتماد تب ہی ہو جب سب کے ساتھ یکساں احتساب ہوگااور انصاف کی ملے گا۔